کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 36
یعنی سال بھر میں جو بڑے بڑے کام سرانجام پانے ہوتے ہیں۔اُن کا آخری فیصلہ اللہ کے حکم سے کردیا جاتا ہے۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ پیدائش واموات،خوشی وغم اور رزق وفقر کے جو بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ اُسی مبارک شب میں ہوتے ہیں جس میں قرآنِ کریم نازل ہوا۔اور وہ شبِ مبارک شبِ قدررمضان میں ہے نہ کہ ماہِ شعبان میں ۔اور شب فارسی ترجمہ ہے لیلۃ کا اور قدرتو ہر دوزباں میں مشترک ہے۔لہٰذا’’لیلۃ القدر‘‘ کو فارسی میں ’’شبِ قدر‘‘کہاجاتا ہے۔حالانکہ یہ نام اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات کو دیا ہے۔البتہ سورۂ دخان کی مذکورہ آیت میں جو لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ کے الفاظ آئے ہیں،ان سے بعض لوگوں نے پندرہ شعبان کی رات مرادلی ہے۔لہٰذا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ دخان کی مذکورہ آیت کی تفسیر قدرے تفصیل سے ذکر کردی جائے۔ چنانچہ معالم التنزیل المعروف تفسیر خازن میں ہے: (قَالَ قَتَادَۃٌ وَابْنُ زَیْدٍ : ھِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ اَنْزَلَ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ) ’’حضرت قتادہ اور ابن زید رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے کہ لیلۂ مبارکہ سے لیلۃ القدر مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل کیا۔‘‘ اور آگے لکھا ہے: (قِیْلَ :ھِیَ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ) [1] ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نصفِ شعبان کی رات ہے۔‘‘ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اہلِ علم کے نزدیک جو بات صحیح ترہو پہلے اسے معروف کے صیغے سے ذکر کردیا جاتا ہے۔اور جو غیر معتبر اقوال ہوں انہیں مجہول کے صیغہ’’قیل‘‘کے بعد لایا
[1] تفسیر خازن ۵؍۱۴۳