کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 34
رات کو ۱۵شعبان کی رات کہے اسکا قول بعیدازحقیقت ہے۔[1]
قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’جمہور علماء کے نزدیک اس سے رمضان کی رات مراد ہے۔پندرہ(۱۵): شعبان والا قول باطل ہے۔‘‘[2]
شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی نے بھی حکیمانہ فیصلوں کی رات،اسی رات کو قرار دیا ہے،جس میں قرآن اتارا گیا تھا۔[3]
اس(پندرھویں شعبان کی)رات کو جو’’شبِ برات‘‘ یا’’ شبِ قدر‘‘کہا جاتا ہے،یہ بھی صحیح نہیں،کیونکہ احادیثِ شریفہ اور فقہاء ومحدّثین کی تصریحات میں اس رات کے بارے میں شبِ برات یا شبِ قدر کے الفاظ کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔اور نہ ہی آج تک عربوں میں یہ رات ایسے ناموں سے معروف ہے۔یہ نام صرف برِ صغیر کی حد تک ہی ہیں۔اور جن بعض روایات میں اس رات کا ذکر آیا ہے وہ بھی نصف شعبان کی رات کے حوالے سے آیا ہے۔اور ویسے بھی شبِ قدر یا شبِ برات سے مراددر اصل وہ لیلۃ القدر ہی ہے،جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کرکے اس امت کیلئے نظامِ زندگی مہیّا کیا اور جادۂ حق کی طرف راہنمائی فرمائی تھی،لہٰذا یہ تعیّن کرنا ہوگا کہ نزولِ قرآن کی رات کونسی ہے؟ اور اسکے ساتھ ہی شبِ قدر یا شبِ برات بھی طے ہوجائیگی کہ وہ کونسی ہے؟قرآنِ کریم کس ماہ اور کس رات میں نازل کیا گیا تھا؟ اس رات کی صراحت خود قرآنِ کریم میں موجود ہے۔چنانچہ سورۂ بقرہ ،آیت :۱۸۵ میں ارشادِ الٰہی ہے:
{ شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْ ٰانُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ
[1] ابن کثیر مترجم اردو ۵؍۶۷۔ترجمہ مولانا محمد ابراہیم جوناگڑھی
[2] احکام القرآن ۴؍ ۱۶۹ طبع بیروت، والابداع فی مضار الابتداع للشیخ علی محفوظ ،ص۲۹۱ طبع وتوزیع دارالاصلاح۔دمّام
[3] حجۃ اللہ البالغہ مترجم اردو ص ۳۸۲،ترجمہ مولانا عبدالحق حقانی طبع دارالاشاعت،کراچی