کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 32
ڈس جانے کے بعد بھی دیرتک اس کے زہر کے اثرسے درد محسوس کرتا رہتا ہے،اسی طرح ہی یہ لوگ شیطان گزیدہ روحوں کے مالک ہوتے ہیں اور سال بھر کے گناہوں کی کثرت سے انکے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں،جیسا کہ سورۃ المطفّفین،آیت :۱۴ میں ارشادِ الٰہی ہے: { بَلْ، رَانَ علٰی قُلُوْبِھِمْ} ’’انکے دلوں پر تو زنگ چڑھ چکا ہے۔‘‘ ایسے لوگ رمضان وغیر رمضان،ہر ماہ میں ایک ہی ڈگر پر چلتے چلے جاتے ہیں،انہیں کسی شیطان کے بہکانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ یاپھر یوں سمجھیئے کہ لوہے کے ایک ٹکڑے کو آگ میں تپاتے تپاتے انگارے کی طرح سرخ کرلیں،پھر اسے تھوڑی سی دیر کیلئے پانی میں ڈبوکر نکال لیں تو وہ گرم ہی نکلے گا(اگرچہ اسکی گرمی کا زور ٹوٹ ہی کیوں نہ گیا ہو) ایسے ہی شیطان گزیدہ اور زنگ آلودہ روحیں گیارہ ماہ کی تپشِ گناہ سے تپتے تپتے انگارہ نمالوہے کے ٹکڑے جیسی ہوجاتی ہیں،اور نزولِ رحمت کے اس مہینے کی ٹھنڈک انہیں ٹھنڈا نہیں کرپاتی کہ برائی کرتے ہوئے اسے شرم دامن گیر ہویا حجاب آئے،بلکہ وہ اپنی عادت کے ہاتھوں کھلونا بنے،شرم وحیاء کے تمام پیمانوں کو پسِ پشت ڈالے رمضان المبارک میں بھی برائی کے ارتکاب سے باز نہیں آتے۔اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ ایسے لوگوں کو دربارِ الٰہی کی چوکھٹ پر گر کر خلوصِ دل سے توبہ تائب ہوجانا چاہیئے تاکہ انکے دلوں کا زنگ دور ہو اور ان پر رحمتِ الٰہی کی بارش اثر انداز ہو ۔اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ))[1]
[1] ابن ماجہ،معجم طبرانی کبیر،حلیۃ الاولیاء ابو نعیم،مسند الشہاب للقضاعی وتاریخ جرجان للسہمی عن ابن مسعود ص والمعرفہ ابن مندہ وحلیۃ الاولیاء ابونعیم عن ابی سعید الانصاری ص وشعب الایمان بیہقی،تاریخ دمشق ابن عساکر عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ،حدیث کا اتنا ٹکڑا شواہد کی بناء پرحسن درجہ کا ہے،جیسا کہ شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ ۲؍۴۱۸ وصحیح الجامع ۲؍۳؍۵۷ وسلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ۲؍۸۳میں لکھا ہے۔