کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 16
منفرد عبادت ہے کہ ایک وقت اسکا تعلق ظاہر سے بالکل ہی ٹوٹ جاتا ہے اور صرف عابد و معبود کا باہمی معاملہ ہی رہ جاتا ہے۔ مثلاً والدین،بہن، بھائیوں اور بیوی بچوں یا دوست و احباب کے ساتھ مل کر سحری کھائی، مگر جب وہ باتھ روم،کچن یا کسی بھی مقام پر تنہا ہے تو بنی نوعِ انسان تو کیا تمام مخلوقات میں سے کوئی پرندہ تک بھی اُسے نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ایسے میں جب باہر شدّت کی دھوپ اور گرمی ہو تو انسان کا نفس ِ امّارہ اسے یہ طفل تسلیاں دیتا ہے کہ اس تنہائی میں اگر تم ٹھنڈے پانی سے شاد کام ہو لو،توکون دیکھ رہا ہے؟ اور کس کاڈر ہے؟ عین اُسی وقت روزہ دار کاذات ِ الٰہی پر غیر متزلزل ایمان آڑے آتا ہے۔ اسکا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے اور اُسے جھنجھوڑ کر بتاتا ہے کہ اس تنہائی میں پانی پینے میں بھی اُس ذات کا ڈرہے کہ جو شہ رگ سے بھی قریب ترہے اور پانی کے منہ سیپیٹ تک جانے کے راستے میں ہی جسکا گھر ہے۔ کیونکہ سورۂ ق ٓ ، آیت:۱۶ میں ارشادِ الٰہی ہے: { نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ} ’’ہم تو اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ ۲) غیر متزلزل ایمان اور اسکی جزا: اس یکسوئی و تنہائی کے لمحات میں اگر اسے فکر ِ آخرت اور خوف ِ الٰہی نہ ہو،اللہ تعالیٰ کے لطیف و خبیر اور علیم ورقیب ہونے پر اسکا مضبوط و محکم ایمان نہ ہوتو وہ کبھی بھی روزے کی تکمیل نہ کرپائے۔یہ دولت ِ ایمان ہی کا کرشمہ ہے کہ آتش بار گرمی اور تشنہ کامی میں بھی وہ روزہ دار کو ٹھنڈے پانی سے شاد کام نہیں ہونے دیتا اور ایک گھونٹ بھی گلے سے نیچے نہیں اُتارنے دیتا۔یہ امتیازی اورانفرادی حیثیّت تمام عبادات میں سے صرف روزے کو ہی حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری ومسلم ا ور نسائی کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: