کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 14
اس آیت کے جن الفاظ میں مذکور ہے کہ ’’تمہاری پوشیدہ خیانتوں کو اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا ہے‘‘ اس حصہ کا مفہوم اس پس منظر کے ساتھ مربوط ہے کہ ابتدائے اسلام میں افطار سے لیکر نمازِ عشاء تک کھانا پینا اور جماع کرنا جائز تھا اور اگر کوئی اس سے پہلے ہی سوگیا تو نیند آتے ہی سب حرام ہوگیا۔اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقّت ہوئی اور ان سے خطائیں بھی سرزد ہوئیں،جنہیں خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ابن ِ کثیر اور دیگر کتب ِ تفسیر میں حضرت قیس اور حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہما کے واقعات بھی منقول ہیں کہ وہ کس مشقّت میں مبتلا ہوئے اور کیا خیانت کر بیٹھے۔الغرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس مشقّت کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور روزے کی راتوں میں اکل وشُرب اور جماع کی عام اجازت دے دی اور سابقہ خطاؤں کو معاف کرنے کا علان بھی فرمادیا۔ [1]
2حدیثِ شریف کی روشنی میں
فرضیّت و رکنیّتِ روزہ:
رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیّت و فضائل ا ور بعض مسائل سے متعلقہ قرآنی آیات کی طرح ہی ہمارے نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی رمضان المبارک کے روزے فرض قرار دیئے گئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ فرض قرار دیئے گئے ہیں ،بلکہ انہیں اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن کا درجہ دیا گیاہے، جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداًرَّسُوْلُ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکوٰۃِ وَصِیَامِ رَمَضَانَ وَ حَجِّ الْبَیْتِ) [2]
[1] تفصیل کیلئے،تفسیر ابن کثیر ۱؍۲۶۲۔۲۶۳ اردو۔
[2] الارواء ۳؍۲۴۸،مشکوٰۃ بتحقیق البانی۱؍۰ا۔