کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 11
لگتا ہے کہ وہ اس آیت میں نسخ کے قائل نہیں،بلکہ وہ اسے مُحکم مانتے تھے۔ [1] جبکہ انہی سے ایک دوسری روایت بھی ثابت ہے جس سے انکایہ نظریہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی نسخ کے قائل تھے،جیساکہ تفسیر ابن جریر،المنتقیٰ ابن جارود اور سنن کبریٰ بیہقی میں عزرہ کے طریق سے انکا قول مروی ہے ۔ [2] شیخ محمدناصر الدین البانی نے ارواء الغلیل میں ان ہر دو قسم کی روایات کے مابین جمع و تطبیق ذکر کرکے اس اشکال کو بھی رفع کردیا ہے،جسکی تفصیل مذکورہ کتاب کی جلد چہارم کے صفحات ۱۷تا۲۵ پر دیکھی جاسکتی ہے۔جہاں دیگر کئی اہم موضوعات بھی آگئے ہیں۔ غرض روزے یا فدیئے کے اختیار کی رخصت کو منسوخ کرنے والی اگلی ہی آیت میں ارشادِالٰہی ہے: { شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ ٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْ ٰانُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ط } (سورۃالبقرہ:۱۸۵) ’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن اتاراگیا،جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق وباطل کی تمیزکی نشانیاں ہیں۔تم میں سے جو شخص اس ماہ میں (مقیم وتندرست) ہو، اسکے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے۔‘‘ آیت کے اس حصہ میں اللہ نے فدئیے والی رخصت کو ختم کردیا،البتہ مریض و مسافر کیلئے رخصتِ قضا ء کو برقرار رکھتے ہوئے فرمایا:
[1] صحیح البخاری مع الفتح ۸؍۷۹،ارواء الغلیل ۴؍۱۷ ومابعد۔ [2] الارواء ۴؍۱۸۔