کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 106
بیشی بھی ہوسکتی ہے اور ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ خود پاک وہند میں ایسا تفاوت ہوتا رہتا ہے۔ اب اگر کہیں اوقات کا تھوڑا بہت فرق ہو مثلاً دن بارہ[۱۲] گھنٹوں کی بجائے سولہ[۱۶] یا سترہ[۱۷]گھنٹوں کا ہوجائے تو ظاہر ہے کہ روزہ کا حکم تب بھی یہی رہے گا۔لیکن اگر کہیں غیر معمولی فرق ہوجائے مثلاً بیس[۲۰] یا بائیس[۲۲] گھنٹوں کا دن ہو جائے اور صرف دوچار گھنٹوں کی رات رہ جائے تو بھی قرآن وسنّت کے عمومی احکام کا تقاضا تو یہی ہے کہ روزہ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک ہو اور احناف کا فتویٰ اسی پر ہے۔[1] البتہ چونکہ بسا اوقات اسکی وجہ سے غیر معمولی مشقّت پیدا ہوجائیگی اور عمر رسیدہ یا کمزور آدمیوں کے لیے روزہ رکھنا دشوار ہوجائیگا ،اس لیے علماء اس بات پر غور کرسکتے ہیں کہ کیا دوسرے قریبی معتدل موسم کے علاقوں کی رعایت کرتے ہوئے غروبِ آفتاب سے پہلے روزہ افطار کرلینا درست ہوگا یا نہیں ؟اور اس بات کا فیصلہ کرنے میں فقہاء کے وہ خیالات بھی سامنے رکھے جاسکتے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں : (اَلْمَشَقَّۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ وَالضَّرَرُ یُزَالُ) ’’ مشقّت آسانی کا باعث ہوتی ہے اور یوں ضرر زائل کیا جائے گا۔‘‘ اور فقہائِ احناف نے تو بھوک وپیاس کی ہلاکت خیز شدّت کو بھی روزہ توڑنے کے لیے عذر قراردیا ہے چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ایسے اعذارکا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہی اعذار میں سے بھوک وپیاس کی شدّت ہے جس سے ہلاکت یا دماغی توازن بگڑجانے کا خطرہ واندیشہ ہوجائے جیسے کوئی کنیز،کام کی انجام دہی سے عاجز ہو اور روزہ رکھنے کی وجہ سے ہلاکت کا اندیشہ رکھتی ہو۔ایسے ہی وہ شخص جسے شاہی افسر تعمیری یا زراعتی کاموں کے لیے سخت گرم دنوں میں کہیں لے جائے اور اسکی ہلاکت یا دماغ کے متاثر ہوجانے کا اندیشہ ہو۔[2]
[1] دیکھیئے: جدید فقہی مسائل ص۸۵ [2] فتاویٰ عالمگیری بحولۂ سابقہ ایضاً