کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 92
کے درود بھیجنے سے مراد یہ ہے،کہ وہ اس کے گناہوں کی معافی کا سوال کرتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔
امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
"وَمِنَ الْمَلَائِکَۃِ ہِيَ الدُّعَائُ وَالْاِسْتِغْفَارُ،کَمَا ہِیَ مِنَ النَّاسِ" [1]
’’فرشتوں کی جانب سے اس[درود]سے مقصود ان کا دعا اور استغفار کرنا ہے،جس طرح کہ لوگوں کی طرف سے بھی اس[درود]سے یہی مراد ہے۔‘‘
اس معنی کی تاکید اس حدیث سے ہوتی ہے،جسے امام طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،کہ انہوں نے بیان کیا،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مُعَلِّمُ الْخَیرِ یَسْتَغْفِرُ لَہُ کُلُّ شَيْئٍ حَتَّی الْحِیْتَانِ فِي الْبِحَارِ" [2]
’’خیر کی تعلیم دینے والے کے لیے ہر چیز استغفار کرتی ہے،حتیٰ کہ سمندروں میں مچھلیاں بھی۔‘‘
[1] المفردات في غریب القرآن،مادۃ ’’صلا‘‘،ص ۲۸۵؛ نیز ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب التفسیر،باب {إن اللہ وملائکتہ یصلون علی النبي… الآیۃ ۸؍۵۳۲۔
[2] منقول از:مجمع الزوائد،کتاب العلم،باب منہ (في فضل العالم والمتعلم)،۱؍۱۲۴۔حافظ ہیثمیؒ لکھتے ہیں،کہ طبرانیؒ نے اسے[الأوسط]میں روایت کیا ہے۔اس کی اسناد میں اسماعیل بن عبد اللہ بن زرارہ ہے۔ابن حبانؒ نے اسے[ثقہ]قرار دیا ہے۔ازدیؒ نے اسے[منکر الحدیث]قرار دیا ہے،لیکن ایسے شخص کے متعلق ازدی کا یہ کہنا قابل توجہ نہیں اور اس کے باقی روایت کرنے والے صحیح کے راویوں میں سے ہیں۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۱؍۱۲۴)۔
امام بزارؒ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہی الفاظ مبارکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت کیے ہیں۔(ملاحظہ ہو:الترغیب والترہیب،کتاب العلم،الترغیب فی العلم وطلبہ وتعلّمہ وتعلیمہ،وما جاء في فضل العالمین والمتعلمین،۱؍۱۰۱)۔شیخ البانیؒ نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح الترغیب والترہیب ۱؍۱۰۹)۔