کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 89
اس بات کی دلیل: امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَـلَّى اللّٰهُ عَلَيْه ِ وسَـلـَّمْ َرَجُلَانِ:أَحَدُہُمَا عَابِدٌ وَالآخَرُ عَالِمٌ۔‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روبرو دو اشخاص کا ذکر کیا گیا:ایک عابد اور دوسرا عالم۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "فَضْلُ الْعَالِمِ [1] عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِيْ عَلٰی أَدْنَاکُمْ" ’’عالم کی عابد پر اسی طرح فضیلت ہے،جس طرح تم میں سے سب سے کم حیثیت والے شخص پر میری فضیلت ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ وَأَہْلَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرَضِینَ حَتَّی النَّمْلَۃَ فِی جُحْرِہَا،وَحَتَّی الْحُوتَ لَیُصَلُّونَ عَلَی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ" [2] ’’یقیناً اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتے،آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے،یہاں تک کہ چیونٹی اپنے بِل میں اور مچھلی لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر درود بھیجتی ہے۔‘‘
[1] (العالم):اس سے مراد علوم شریعت کا ایسا عالم ہے،جو شریعت کے مطابق عمل کرتا ہو۔(ملاحظہ ہو:مرقاۃ المفاتیح ۱؍۴۷۲)۔ [2] جامع الترمذي،أبواب العلم،باب في فضل الفقہ علی العبادۃ،رقم الحدیث:۲۸۲۵،۷؍۳۷۹۔۳۸۰۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي ۲؍۳۴۳)۔