کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 81
تشبیہ دی ہے۔دونوں کے لیے اس روکنے کے فائدے کو فریقین کے غرق ہونے سے بچنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔[حدود اللہ پامال کرنے والے کے]چھوڑنے کو سوراخ کرنے والے کو چھوڑنے سے تشبیہ دی ہے۔مداہنت کرنے والوں کے نہ روکنے کے گناہ کو دونوں گروہوں کی تباہی و بربادی سے بیان کیا گیا ہے۔[1]
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے،کہ تباہی و بربادی سے نجات پانے اور کامیابی کے حصول کی شرائط میں سے ایک بات یہ ہے،کہ فساد بپا کرنے والے کو فساد سے روکا جائے،وگرنہ نیک لوگ بھی اس کے ساتھ ہی ہلاک ہوجائیں گے۔
ب:علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے:
’’حدیث کا معنی یہ ہے،کہ اگر لوگوں نے فاسق کو فسق سے روکا،تو عذاب الٰہی سے فاسق اور دوسرے لوگ بچ جائیں گے اور اگر انہوں نے اسے گناہ ہی میں رہنے دیا اور اس پر حد قائم نہ کی،تو ان پر عذاب نازل ہوگا اور وہ اس[کے گناہ]کی نحوست کے سبب ہلاک ہوجائیں گے اور ارشاد باری تعالیٰ:﴿وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً﴾[2]سے بھی یہی مراد ہے۔‘‘ [3]
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ متعدد نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تباہی و بربادی سے بچاؤ اور کامیابی کے حصول کے لیے دعوت الی اللہ تعالیٰ ایک بنیادی شرط ہے،اور یہ بات بلاشبک و شبہ دعوت دین کی شان و عظمت کو اجاگر کرتی ہے۔
[1] ملاحظہ ہو:شرح الطیبی ۱۰؍۳۲۶۱۔
[2] سورۃ الأنفال ؍ جزء من الآیۃ ۲۵۔[ترجمہ:اور تم ایسے وبال سے بچو،جو تم میں سے صرف ظالموں پر ہی واقع نہ ہوگا]۔
[3] مرقاۃ المفاتیح ۸؍۸۶۵؛ نیز ملاحظہ ہو:فتح الباري ۵؍۲۹۶؛ وعمدۃ القاري ۱۳؍۲۶۴؛ وتنبیہ الغافلین ص ۲۳۔