کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 80
ایک شخص]نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کی زیریں جانب سوراخ کرنا شروع کردیا۔
وہ[بالائی منزل والے]اس کے پاس آئے اور کہنے لگے]’’تجھے کیا ہوا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا:’’تم نے میری وجہ سے اذیت محسوس کی ہے اور میرا پانی کے بغیر گزارہ نہیں۔‘‘
پس اگر انہوں نے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا (یعنی کشتی میں سوراخ کرنے سے روک دیا)،تو انہوں نے اسے[غرق ہونے سے]بچالیا اور اپنے آپ کو بھی بچالیا اور اگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا،تو انہوں نے اسے ہلاک کردیا اور خود اپنی جانوں کو بھی برباد کردیا۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:
"فَإِنْ أَخَذُوْا عَلَی أَیْدِیْہِمْ،فَمَنَعُوْہُمْ،نَجَوْا جَمِیْعًا،وَإِنْ تَرَکُوْہُمْ غَرِقُوْا جَمِیْعًا" [1]
’’اگر انہوں نے ان کے ہاتھوں کو تھام کر انہیں منع کردیا،تو سارے نجات پاجائیں گے اور اگر انہیں چھوڑ دیا،تو سارے غرق ہوجائیں گے۔‘‘
شرحِ حدیث:
ا:امام طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدود اللہ میں مداہنت کرنے والے کو بالائی منزل والوں کے ساتھ اور انہیں توڑنے والے کو نچلی منزل والوں سے تشبیہ دی ہے،حدود اللہ کی بے حرمتی کرنے کو کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔انہیں روکنے کو ان کے ہاتھوں کو تھامنے اور کشتی میں سوراخ کرنے سے باز کرنے کے ساتھ
[1] المسند ۴؍۲۶۸۔(ط:المکتب الإسلامي)۔