کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 79
أَسْفَلِہَا یَمُرُّونَ بِالْمَائِ عَلَي الَّذِینَ فِی أَعْلَاہَا،فَتَأَذَّوْا بِہِ،فَأَخَذَ فَأْسًا،فَجَعَلَ یَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِینَۃِ،فَأَتَوْہُ،فَقَالُوا:’’مَالَکَ؟‘‘
قَالَ:’’تَأَذَّیْتُمْ بِي،وَلَا بُدَّ لِی مِنَ الْمَائِ۔‘‘
فَإِنْ أَخَذُوا عَلَی یَدَیْہِ أَنْجَوْہُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَہُمْ۔وَإِنْ تَرَکُوہُ أَہْلَکُوہُ وَأَہْلَکُوا أَنْفُسَہُمْ" [1]
’’اللہ تعالیٰ کی حدود میں مداہنت کرنے والے اور ان میں واقع ہونے والے کی مثال لوگوں کی ایک ایسی جماعت کی طرح ہے،کہ انہوں نے کشتی میں[اپنی اپنی جگہ کے تعین کی خاطر آپس میں]قرعہ اندازی کی۔کچھ لوگوں کو نچلی منزل میں جگہ میسر آئی اور بعض کو بالائی منزل میں۔نچلی منزل والے پانی لینے کی غرض سے بالائی منزل والوں کے پاس سے گزرتے،تو وہ تنگی محسوس کرتے۔اس[نچلی منزل والوں میں سے
[1] المسند ۴؍۲۶۸ و ۲۷۰۔(ط:المکتب الإسلامي)؛ وصحیح البخاري،کتاب الشہادات،باب القرعۃ في المشکلات،رقم الحدیث ۲۶۸۶،۵؍۲۹۲۔۲۹۳؛ وجامع الترمذي،أبواب الفتن،باب منہ،رقم الحدیث ۲۲۶۴،۶؍۳۲۸۔۳۲۹۔الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔
اس حدیث شریف میں ایک قابل توجہ بات یہ ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کشتی میں سوراخ کرنے سے روکنے والوں کے لیے[صیغہ جمع]اور سوراخ کرنے والے کے لیے[صیغہ مفرد]استعمال فرمایا۔اس بارے میں امام طیبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:سوراخ کرنے سے روکنے والوں کے لیے[صیغہ جمع]استعمال کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کی رہنمائی فرمائی ہے،کہ غلط کام سے روکنے میں مسلمانوں کو باہمی تعاون کرنا چاہیے یا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے،کہ برائی سے منع کرنے والا شخص اگرچہ گنتی میں ایک ہے،لیکن وہ اپنے مقام و مرتبہ میں جماعت کی حیثیت رکھتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:﴿إِنَّ إبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً﴾۔(سورۃ النحل / جزء من الآیۃ ۱۲۰)۔[ترجمہ:یقینا ابراہیم علیہ السلام ایک جماعت تھے۔](ملاحظہ ہو:شرح الطیبي ۱۰/۳۲۶۱)۔