کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 78
اسی بارے میں قاضی ابوسعود رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:’’﴿ذٰلِکَ﴾کے ساتھ مذکورہ بالا اجر و ثواب کی طرف اشارہ ہے اور﴿ذٰلِکَ﴾میں دوری کا معنی ان کو ملنے والے اجر و ثواب کی عظمت اور فخامت پر دلالت کناں ہے۔﴿ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾[وہی عظیم کامیابی ہے]دنیوی سازو سامان کا حاصل ہوجانا،جنہیں لوگ کامیابی شمار کرتے ہیں،کامیابی نہیں،کیونکہ وہ سب چیزیں فانی اور زوال پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت کی معمولی سی نعمت کے مقابلے میں مچھر کے پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔‘‘ [1]
شیخ سعدی رحمہ اللہ نے﴿ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾کی تفسیر میں تحریر کیا ہے:’’(یہ عظیم کامیابی اس لیے ہے)،کیونکہ انہوں نے اپنی ہر مراد کو حاصل کرلیا،ہر ناپسندیدہ چیز ان سے دور ہوگئی اور ان کے سارے معاملات عمدہ اور بھلے ہوگئے۔ہماری اللہ تعالیٰ سے التجا ہے،کہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرمادے۔‘‘ [2] آمین یا حي یا قیوم۔
۴:دعوت الی اللہ تعالیٰ کے نجات پانے اور کامیابی کے حصول کی شرائط میں سے ہونے کی چوتھی دلیل درجِ ذیل حدیث ہے:
حضرات ائمہ احمد،بخاری اور ترمذی رحمہم اللہ نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے،کہ انہوں نے کہا،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مَثَلُ الْمُدْہِنِ فِی حُدُودِ اللّٰهِ وَالْوَاقِعِ فِیہَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَہَمُوا سَفِینَۃً،فَصَارَ بَعْضُہُمْ فِي أَسْفَلِہَا،وَصَارَ بَعْضُہُمْ فِي أَعْلَاہَا،فَکَانَ الَّذِي فِي
[1] تفسیر أبي السعود ۴؍۸۳،نیز ملاحظہ ہو:الکشاف ۲؍۲۰۲؛ وفتح القدیر ۲؍۵۵۵؛ وروح المعاني ۱۰؍۱۳۷۔
[2] تفسیر السعدي ص ۳۵۸۔