کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 72
کے ذمہ ہیں اور انہی میں سے:[انہیں دین کی دعوت دینا،نصیحت کرنا،نیکی کا حکم دینا،بدی سے روکنا اور ان کے لیے وہی پسند کرنا،جو اپنے لیے پسند کرے]شامل ہیں۔‘‘ [1] د:حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اس[یعنی زمانے]کے ساتھ قسم کھائی ہے،کہ یقیناً انسان خسارے اور بربادی میں ہے﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خسارے سے مستثنیٰ قرار دیا،جو اپنے دلوں کے ساتھ ایمان لائے اور جوارح کے ساتھ اعمال کیے،﴿وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ﴾نیکیوں کے کرنے کا حکم دیا اور محرّمات سے بچنے کی تلقین کی﴿وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾اور مصائب،آفات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بنا پر آنے والی اذیتوں پر صبر کرنے کی تلقین کی۔‘‘ [2] اعمال صالحہ پر[تواصي بالحق]اور[تواصي بالصبر]کے عطف کی حکمت: [تواصي بالحق]اور[تواصي بالصبر]دونوں اعمال صالحہ میں شامل ہیں،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کے ذکر کرنے کے بعد ان دونوں کا ذکر فرمایا۔اس کی حکمت کی بارے میں ذیل میں دو مفسرین کی تحریریں ملاحظہ فرمائیے: ا:شیخ محی الدین شیخ زادہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے: ’’[تواصي بالحق]اور[تواصي بالصبر]کا اعمالِ صالحہ میں شامل ہونے کے باوجود الگ مستقل طور پر ذکر کرنا،ان دونوں کی شان و عظمت آشکارا کرنے کے لیے ہے۔‘‘[3]
[1] التفسیر الکبیر ۳۲؍۷۹۔۸۰۔ [2] تفسیر ابن کثیر ۴؍۵۸۲۔ [3] حاشیۃ الشیخ محي الدین شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوي ۴؍۶۹۳۔اس کی مثال ایسے ہی ہے،جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے {حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطٰی}۔(سورۃ البقرۃ ؍ جزء من الآیۃ ۲۳۸)۔[ترجمہ:نمازوں کی حفاظت کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی]میں نمازوں کا ذکر کرنے کے بعد درمیانی نماز کا ذکر فرمایا ہے۔