کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 71
نے قسم کھائی ہے﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ[1] انہوں نے بیان فرمایا،کہ سارے انسان[خسارے میں ہیں]،پھر استثناء کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا[2] پھر بات کو یہیں ختم نہیں کیا،یہاں تک کہ فرمایا﴿وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ[3] پھر بات کو یہاں ختم نہیں کیا،بلکہ فرمایا:﴿وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ[4] پھر بات کو اسی مقام پر نہیں چھوڑا،بلکہ مزید فرمایا:﴿وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ[5] اور یہ چاروں شرطیں[خسارے سے بچاؤ کے لیے]ان پر مقرر کی ہیں۔‘‘[6] ب:قاضی ابن عطیہ اندلسی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے: ’’جو شخص زندگی بھر حق و صبر کی تلقین کرتا رہے اور خود بھی اس کے مطابق عمل کرے،وہ توخسارے میں نہیں اور[ایسے شخص نے]اپنے لیے ساری خیر کو جمع کرلیا۔‘‘ [7] ج:علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’اس میں شدید وعید ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کے بارے میں یہ فیصلہ دیا ہے،کہ وہ خسارے میں ہیں،سوائے اس شخص کے جس میں چار باتیں ہوں:ایمان،عملِ صالح،حق بات کی وصیت کرنا،صبر کی وصیت کرنا اور یہ سورت اس بات پر دلالت کناں ہے،کہ نجات ان چاروں باتوں کے اکٹھے ہونے سے وابستہ ہے۔جس طرح ہر مکلف شخص اپنے لیے کچھ اعمال کرنے کا پابند ہے،اسی طرح دوسرے لوگوں کے کچھ واجبات بھی اس
[1] یقینا تمام بنی نوع انسان البتہ بہت بڑے خسارے میں ہیں۔ [2] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے۔ [3] اور نیک اعمال کیے۔ [4] اور آپس میں حق کی وصیت کی۔ [5] اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔ [6] ملاحظہ ہو:تفسیر القرآن للإمام عبد الراق الصنعاني ۲؍۳۹۴۔ [7] المحرر الوجیز ۱۶؍۳۶۲۔