کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 62
نقل کردے،تاکہ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا سارا دین امت تک منتقل ہوجائے۔‘‘[1]
قاضی بیضاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے حوالے سے ایک نکتہ بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث کی بجائے آیت قرآنی کے پہنچانے کا ذکر فرمایا،تاکہ لوگوں کے لیے یہ حقیقت واضح ہوجائے،کہ جب قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے لینے کے باوجود اس کے دوسروں تک پہنچانے کی تاکید اس قدر شدید ہے،تو احادیث کو پہنچانے کی تاکید کس قدر زیادہ ہوگی۔[2]
۳: دعوت الی اللہ تعالیٰ کی فرضیت کے بارے میں ایک اور دلیل وہ حدیث ہے،جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،کہ انہوں نے کہا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"أَتَدْرُوْنَ أَیُّ یَوْمٍ ہٰذَا؟"
’’کیا تمہیں معلوم ہے،کہ یہ کون سا دن ہے؟‘‘
-یہاں تک- کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟"
’’کیا میں نے پیغامِ (الٰہی) پہنچادیا ہے؟‘‘
قَالُوْا:"نَعَمْ"
’’انہوں نے عرض کیا:’’جی ہاں۔‘‘
آپ نے فرمایا:
"اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ۔فَلْیُبَلَّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ۔فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ"[3]
[1] ملاحظہ ہو:فتح الباري ۶؍۴۹۸۔
[2] ملاحظہ ہو:عمدۃ القاري ۱۶؍۴۵۔
[3] صحیح البخاري،کتاب الحج،باب الخطبۃ أیام منی،جزء من رقم الحدیث ۱۷۴۱،۳؍۵۷۳۔۵۷۴۔