کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 57
اقتدا کریں اور بعد میں آنے والے لوگ ہماری پیروی کریں۔‘‘[1]
ب:امام ابن عربی رحمہ اللہ نے تحریر کیا:’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا﴾سے مراد یہ ہے،کہ ہمیں قدوہ بنا۔‘‘[2]
ج:علامہ قرطبی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:’’یعنی[ہمیں]قدوہ[بنا]لوگ خیر میں ہماری اقتدا کریں۔‘‘[3]
د:علامہ غرناطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:’’یعنی نمونہ،کہ متقی لوگ ہماری اقتدا کریں۔‘‘[4]
ھ:حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما،حسن،سدی،قتادہ اور ربیع ابن انس رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے،کہ انہوں نے﴿وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا﴾کی تفسیر میں بیان کیا:
’’[ہمیں]امام[بنا]،کہ خیر کی باتوں میں ہماری اقتدا کی جائے۔‘‘[5]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ بھی تحریر کیا ہے،کہ ان کے علاوہ دیگر علمائے امت نے آیت کریمہ کی تفسیر میں بیان کیا ہے:
’’ہمیں ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادیجیے،کہ ہم دوسروں کو دعوتِ خیر دیں۔انہوں نے اس بات کو پسند کیا،کہ ان کی عبادتوں کے ساتھ ان کی اولادوں اور آئندہ نسلوں کی عبادتیں مل جائیں اور ان کی ہدایت کا نفع دوسروں تک پہنچ جائے اور یہ بات ان کے لیے زیادہ ثواب اور بہتر انجام والی ہے۔
[1] شرح السنۃ،کتاب العلم،باب ثواب من دعا إلی ہدی أو أحیا سنۃ،وإثم من ابتدع بدعۃ أو دعا إلیہا،۱؍۲۳۱،نیز ملاحظہ ہو:أحکام القرآن للجصاص ۳؍۳۴۸۔
[2] أحکام القرآن ۳؍۱۴۳۴۔
[3] تفسیر القرطبي ۱۳؍۸۳۔
[4] کتاب التسہیل ۳؍۱۷۹؛ نیز دیکھئے:تفسیر البیضاوي ۲؍۱۴۸۔
[5] تفسیر ابن کثیر ۳؍۳۶۳۔