کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 53
کی خواہش کرنا،لیکن یہ تمنا نہ ہو،کہ وہ اس سے چھین لی جائے اور اس بات کی رغبت کرنے کو[منافسۃ]کہا جاتا ہے اور اگر یہ نیکی میں ہو تو قابل تعریف ہے۔اسی بارے میں[اللہ تعالیٰ کا ارشاد]﴿فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ[1] ہے اور اگر یہ گناہ کے کام میں ہو،تو قابلِ مذمت ہے اور اسی بارے میں﴿وَلَا تَنَافَسُوْا[2] ہے۔‘‘[3] ۲:مال خرچ کرنے اور علم سکھلانے کی ترغیب: اس حدیث شریف میں دو باتوں کی ترغیب دی گئی ہے:راہ حق میں مال خرچ کرنا اور علم سکھلانا۔ امام طیبی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے: ’’حدیث کا مقصود[راہِ خیر میں]مال خرچ کرنے اور علم سکھلانے کی ترغیب دینا ہے۔‘‘[4] ۳:دونوں کاموں کی عظمت: اس حدیث میں مذکورہ بالا دونوں خصلتوں کی شان و عظمت اجاگر کی گئی ہے۔اسی کے متعلق ذیل میں تین علمائے امت کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ا:امام ابن منیِّر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:حدیث پاک کا مقصود رشک کے بلند ترین مرتبہ کو ان دو
[1] سورۃ المطففین ؍ جزء من الآیۃ ۲۶۔ [ترجمہ:مقابلہ کرنے والوں کو (ان کے حصول میں) مقابلہ کرنا چاہیے] [2] ملاحظہ ہو:صحیح مسلم،کتاب البر،باب تحریم الظن والتجسس والتنافس،رقم الحدیث ۲۸۔(۲۵۶۳)،۴؍ ۱۹۸۵۔[ترجمہ:(دنیا اور اس کے سازو سامان کے حصول کی رغبت میں) مقابلہ نہ کرو] [3] ملاحظہ ہو:فتح الباری ۱؍۱۶۶۔۱۶۷۔ [4] دیکھئے:شرح الطیبی ۲؍۶۶۲۔