کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 52
وَیُعَلِّمُہَا"[1]
’’دو کے سوا کسی اور پر حسد[یعنی رشک]کرنا درست نہیں:[ایک]وہ شخص،کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال عطا فرمایا اور پھر اسے راہ حق میں خوب خرچ کرنے کی قوت سے نوازا گیا اور[دوسرا]وہ شخص،جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت سے نوازا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو۔‘‘
حدیث شریف کے متعلق چھ باتیں:
حدیث شریف کے حوالے سے اس مقام پر درج ذیل چھ باتوں کا ذکر کرنا شاید مناسب ہو:
۱:لفظ[حسد]سے مراد:
حدیث شریف میں موجود لفظ[حسد]سے مراد رشک ہے۔
ا:امام ابن منیِّر نے تحریر کیا ہے:
’’یہاں[حسد]سے مراد رشک ہے۔‘‘[2]
ب:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’[حسد]سے مراد یہ ہے،کہ صاحب نعمت کے بارے میں تمنا کرنا،کہ اس کی نعمت نہ رہے،لیکن حدیث میں لفظ[حسد]سے مقصود رشک ہے اور اس کے لیے یہ لفظ مجازی طور پر استعمال کیا گیا ہے اور یہاں معنی یہ ہے،کہ دوسرے شخص کے پاس موجود نعمت جیسی نعمت کے حصول
[1] متفق علیہ:صحیح البخاري،کتاب العلم،باب الاغتباط في العلم والحکمۃ،رقم الحدیث ۷۳،۱؍۱۶۵؛ وصحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلّمہ،وفضل من تعلّم حکمۃ من فقہ وغیرہ،فعمل بہا وعلمہا،رقم الحدیث ۲۶۸۔(۸۱۶)،۱؍۵۵۹۔الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔
[2] منقول از:فتح الباري ۱۳؍۱۲۰۔