کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 50
معلّم ایسی پاکیزہ زمین کی مانند ہے،جو بارش سے سیراب ہوکر خود فیض یاب ہوئی اور کھیتی اگا کر دوسروں کو فیض یاب کیا۔[1]
ب:امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث شریف سے ان حضرات کی شان و عظمت پر استدلال کیا ہے،جن میں علم،عمل اور دعوت الی اللہ تعالیٰ کی تینوں صفات بیک وقت پائی جاتی ہیں۔انہوں نے تحریر کیا ہے:ہدایت اور علم کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو تین طبقوں میں تقسیم فرمایا ہے:
پہلا طبقہ:رسولوں کے وارثین اور انبیاء کے جانشین ہیں:یہ وہ لوگ ہیں،جو کہ دین پر علم،عمل اور دعوت الی اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے ایمان لائے ہیں۔رسولوں کے حقیقی معنوں میں پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں اور وہ اس عمدہ زمین کی مانند ہیں،جو خود پاک ہوئی،پانی قبول کیا اور بڑی مقدار میں گھاس پھوس اگائی۔پانی سے یہ زمین خود مستفید ہوئی اور دوسروں کو فائدہ پہنچایا اور یہی وہ لوگ ہیں،جنہوں نے بصیرتِ دین اور قوتِ دعوت کو اپنے اندر جمع کیا۔اسی وجہ سے یہ لوگ حضرات انبیاء علیہم السلام کے وارثین قرار پائے۔ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَاذْکُرْ عِبَادَنَآ اِبْرَاہِیْمَ وَاِِسْحٰقَ وَیَعْقُوبَ اُوْلِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ﴾[2]
[ترجمہ:اور ہمارے بندوں ابراہیم،اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا[لوگوں سے]ذکر کرو،جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے]
’’یعنی اللہ تعالیٰ کے دین میں آنکھوں والے،کہ آنکھوں ہی سے حق کا ادراک اور پہچان ہوتی ہے اور قوت ہی سے حق کی تبلیغ،نفاذ اور اس کی طرف دعوت کا کام سر
[1] ملاحظہ ہو:فتح الباري ۱؍۱۷۷۔
[2] سورۃ ص ؍ الآیۃ ۴۵۔