کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 49
مَنْ لَمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا،وَلَمْ یَقْبَلْ ہُدَی اللّٰهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِہِ"[1]
’’اللہ تعالیٰ نے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مجھے مبعوث فرمایا،وہ زمین پر نازل ہونے والی بہت زیادہ بارش کی طرح ہے۔زمین کا ایک حصہ صاف ستھرا تھا۔اس نے پانی قبول کیا (یعنی پانی سے سیراب ہوا) اور بہت زیادہ مقدار میں گھاس پھوس اگایا اور کچھ پتھریلی زمین تھی،اس نے پانی روکا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے لوگوں کو نفع دیا۔انہوں نے اس سے[خود]پیا اور[مویشیوں کو]پلایا اور کھیتی باڑی کی۔کچھ بارش ایسے زمینی حصوں کو پہنچی،جو چٹیل تھے۔انہوں نے نہ ہی پانی[اپنے اندر]روکا اور نہ ہی کچھ اگایا۔پس یہی اس شخص کی مثال ہے،جس نے اللہ تعالیٰ کے دین کو خوب سمجھا اور اس[شریعت]سے فیض پایا،جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا،اس نے علم حاصل کیا اور سکھلایا اور[یہی]اس شخص کی مثال ہے،جس نے اس سے اعراض کیا اور جس ہدایت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا،اسے قبول نہیں کیا۔‘‘
شرح حدیث:
ا: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث کی شرح میں امام قرطبی رحمہ اللہ اور دیگر علماء سے نقل کیا ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لائے ہوئے دین کو عام بارش سے تشبیہ دی ہے،جو کہ لوگوں پر ان کی شدید ضرورت کے وقت نازل ہوتی ہے،پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سامعین کو مختلف قسموں والی زمین سے تشبیہ دی۔لوگوں میں سے علم و عمل والا
[1] متفق علیہ:صحیح البخاري،کتاب العلم،باب فضل من عَلِم وعلَّم،رقم الحدیث ۷۹،۱؍۱۷۵؛ وصحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب بیان مثل ما بعث النبي صلى الله عليه وسلم من الہدی والعلم،رقم الحدیث ۱۵۔(۲۲۸۲)،۴؍۱۷۸۷۔۱۷۸۸۔الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔