کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 45
روشن اور کوئی راہ نہیں اور اس کے عمل سے زیادہ ثواب والا اور کو ئی عمل نہیں۔‘‘[1] آیت کریمہ کا شمول: یہ آیت شریفہ ہر اس شخص کے بارے میں ہے،جس نے دعوتِ دین دی،نیک عمل کیے اور اپنے مسلمان ہونے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا،خواہ وہ شخص زمانہ ماضی میں تھا یا اب موجود ہو یا زمانہ مستقبل میں پایا جائے۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’صحیح بات یہ ہے،کہ یہ آیت عام ہے،جیسا کہ امام عبد الرزاق نے معمر رحمہما اللہ کے حوالے سے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے متعلق روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی:﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾اور پھر فرمایا:’’یہ اللہ تعالیٰ کا حبیب ہے،یہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہے،یہ اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ شخص ہے،یہ اللہ تعالیٰ کو اہلِ زمین میں سے سب سے زیادہ محبوب ہے،اس نے اللہ تعالیٰ کی دعوت قبول کی اور اسی کی طرف لوگوں کو بلایا اور خود اس دعوت کے مطابق نیک عمل کیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا،یہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ [2]ہے۔‘‘ [3]
[1] فتح القدیر ۴؍۷۳۴۔ [2] (خلیفۃ اللہ):کسی کو خلیفۃ اللہ کہنے کے بارے میں علمائے امت کے دو اقوال ہیں۔بعض نے بیان کیا ہے،کہ ایسا کہنا درست نہیں اور بعض نے اس کو درست قرار دیا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے طرفین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا ہے:اگر خلیفۃ اللہ سے مراد یہ ہے،کہ وہ اللہ تعالیٰ کا جانشین ہے،تو ایسا کہنا درست نہیں اور اگر اس سے مقصود یہ ہے،کہ اسے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ لوگوں کا جانشین بنایا ہے،تو پھر یہ کہنا صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت سے ایسے شخص کی شان و عظمت بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔(ملاحظہ ہو:مفتاح دار السعادۃ ۱؍۱۵۱۔۱۵۳)۔ [3] ملاحظہ ہو:تفسیر ابن کثیر ۴؍۱۰۶؛ نیز دیکھئے:تفسیر القرآن للإمام عبد الرزاق ۲؍۱۸۷؛ وتفسیر البغوي ۴؍۱۱۴؛ والکشاف ۳؍۴۵۳؛ والمحرر الوجیز ۱۴؍۱۸۵؛ وتفسیر القرطبي ۱۵؍۳۶۰؛ والبحر المحیط ۷؍۴۷۵؛ ومفتاح دار السعادۃ ۱؍۱۵۳؛ وتفسیر البیضاوي ۲؍۳۵۳؛ وتفسیر أبي السعود ۸؍۱۴؛ وروح المعاني ۲۴؍۲۲!،وفتح القدیر ۴؍۷۳۴۔