کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 42
طرف دعوت دی،وہ راہِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بصیرت پر ہے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں میں سے بھی ہے۔جس کسی نے اس کے سوا کسی اور بات کی دعوت دی،وہ نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر ہے اور نہ ہی بصیرت پر۔ایسا شخص آپ کے تابع داروں میں سے بھی نہیں۔
دعوت الی اللہ تعالیٰ رسولوں اور ان کے تابع دار لوگوں کا مشن ہے اور وہ رسولوں کی امتوں میں ان کے جانشین ہیں اور دوسرے لوگ ان کے پیروکار ہیں۔‘‘ [1]
ایک اور مقام پر مذکورہ بالا آیت کریمہ ذکر کرنے کے بعد حضرت امامؒ فرماتے ہیں:آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحیح معنوں میں پیروکار وہی ہے،جو کہ بصیرت کی بنیاد پر اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے،جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت دیا کرتے تھے۔اسی قسم کے لوگ حقیقت میں رسولوں کے جانشین ہیں اور دوسرے لوگوں کی بجائے ان کے حقیقی وارث ہیں۔وہی وہ اہل علم ہیں،جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کا علم و عمل،ہدایت و ارشاد اور صبر و جہاد کے اعتبار سے حق ادا کیا اور یہی لوگ صدّیق ہیں اور انبیاء علیہم السلام کے پیروکاروں میں سے اعلیٰ و افضل ہیں اور ان سب کے سردار اور امام (حضرت) صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا﴾[2]
[ترجمہ:اور جو بھی اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرماں برداری کرے،پس
[1] جلاء الأفہام ص ۴۱۵۔
[2] سورۃ النساء ؍ الآیتان ۶۹۔۷۰۔