کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 41
آیت کریمہ سے استدلال: علمائے امت نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کے ضمن میں دعوت الی اللہ تعالیٰ کی شان و عظمت کو خوب واضح کیا ہے۔ذیل میں ان میں سے تین حضرات کے اقوال پیش کیے جارہے ہیں: ا:حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’اللہ تعالیٰ جن و انس کی طرف اپنے مبعوث کردہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے،کہ وہ لوگوں کو خبر دے دیں،کہ ان کی راہ یہ ہے یعنی ان کا طریقہ،دستور اور سنت اس بات کی دعوت دینا ہے،کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ان کی یہ دعوت بصیرت،یقین اور برہان پر مبنی ہے،اسی طرح ہر وہ شخص جو ان کا پیروکار ہے،وہ بھی اسی بات کی دعوت بصیرت اور عقلی اور شرعی دلائل کی بنیاد پر دیتا ہے۔‘‘ [1] ب:امام ابن قیم نے تحریر کیا ہے: ’’معنی خواہ یہ ہو،کہ میں اور میری پیروی کرنے والے دعوت الی اللہ تعالیٰ بصیرت پر دیتے ہیں یا﴿اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ[2] پر وقف ہو اور پھر بات کی ابتدا﴿عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾[3]سے ہو،دونوں اقوال کا مقصود ایک ہی ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا،کہ وہ اس بات کی خبر دے دیں،کہ ان کی راہ دعوت الی اللہ تعالیٰ ہے،پس جس شخص نے بھی اللہ تعالیٰ کی
[1] تفسیر ابن کثیر ۲؍۵۴۳۔۵۴۴؛ نیز ملاحظہ ہو:معاني القرآن للفراء ۲؍۵۵؛ وتفیسر الطبري ۱۶؍۲۹۲؛ وأحکام القرآن للجصاص ۳؍۱۷۹؛ وتفیسر البغوي ۲؍۴۵۳؛ والکشاف ۲؍۴۳۶؛ والتفسیر الکبیر ۱۸؍۲۲۵؛ وتفسیر القرطبي ۲؍۴۵۳؛ وفتح القدیر ۲؍۸۵؛ وتفسیر التحریر والتنویر ۱۳؍۶۵؛ وتفسیر السعدي ص ۴۳۰؛ وأیسر التفاسیر ۲؍۴۳۲۔ [2] ترجمہ:میں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ [3] ترجمہ:میں اور میری پیروی کرنے والا بصیرت پر ہے۔