کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 34
[ترجمہ:ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا ہے اور جہنم والوں کے بارے میں آپ سے پوچھا نہیں جائے گا]
۳۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا﴾[1]
[ترجمہ:بہت بابرکت ہے وہ ذات،جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا،تاکہ وہ سب جہان والوں کے لیے ڈرانے والا بن جائے]
۴:ارشادِ ربانی:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا۔وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا﴾[2]
[ترجمہ:اے نبی!یقیناً ہم آپ کو گواہی دینے والا،بشارت دینے والا،ڈرانے والا،اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور چمکتا ہوا چراغ بھیجا ہے]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے﴿دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ﴾کی تفسیر میں تحریر کیا ہے:
’’یعنی حکمِ الٰہی کی تعمیل میں آپ مخلوق کو اپنے رب کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘ [3]
شیخ ابن عاشور رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’﴿بِإِذْنِہٖ﴾[یعنی اس کے اذن کے ساتھ]سے یہ بات معلوم ہوتی ہے،کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف دعوت دینے والا بنا کر مبعوث فرمایا ہے اور دعوت کے کٹھن اور پرخطر ہونے کے باوجود اسے آپ کے لیے آسان فرمادیا ہے۔‘‘ [4]
[1] سورۃ الفرقان ؍ الآیۃ الأولی۔
[2] سورۃ الأحزاب ؍ الآیتان ۴۵۔۴۶۔
[3] تفسیر ابن کثیر ۳؍ ۵۴۷۔
[4] التحریر والتنویر ۲۲؍۴۔