کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 145
لیتے ہیں،لیکن سنن کی تبلیغ کا کام تو انبیاء کے وارثین اور ان کی امتوں میں سے ان کے جانشین ہی سرانجام دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ایسے لوگوں میں شامل فرمائے۔‘‘[1] اے ہمارے رحمن و رحیم رب!ہم ناکاروں،ہماری اولادوں اور بہن بھائیوں کو بھی۔إِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔ د:آیت کریمہ﴿فَــلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیْرًا﴾کی تفسیر کرتے ہوئے قاضی بیضاوی رحمہ اللہ نے جہاد باللسان کی تیر کے ساتھ جہاد پر فضیلت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿جِہَادًا کَبِیْرًا﴾[بڑا جہاد]،کیونکہ دلائل کے ساتھ بیوقوفوں کے مقابلے میں جہاد کرنا دشمنوں کے خلاف تلوار سے جہاد کرنے سے بڑا ہے۔‘‘[2] جہاد باللسان کی افضلیت کے متعلق حدیث: جہاد باللسان کی جہاد بالسیف کے مقابلے میں فوقیت پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے،جسے امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،کہ انہوں نے کہا،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "أَفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ"[3] ’’افضل جہاد ظالم حاکم کے روبرو انصاف کی بات کہنا ہے۔‘‘
[1] التفسیر القیم ص ۴۳۱۔ [2] تفسیر البیضاوی ۲؍۱۴۴۔ [3] سنن ابن ماجہ،أبواب الفتن،باب الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر،رقم الحدیث ۴۰۶۰،۲؍۳۸۳۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن ابن ماجہ ۲؍۳۶۹)۔