کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 144
وَ اغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ[1]﴾"[2] [اے نبی!کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سخت ہوجاؤ،ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جگہ ہے] پھر امام رحمہ اللہ نے تحریر کیا: ’’منافقوں کے خلاف جہاد کافروں کے مقابلے میں جہاد سے زیادہ کٹھن ہے۔یہ جہاد تو خواصِ امت اور رسولوں کے جانشینیوں کا کام ہے۔اس کے کرنے والے دنیا میں گنتی کے لوگ ہیں،وہ تعداد میں اگرچہ قلیل ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں شان و عظمت میں سب سے بلند و بالا ہیں۔‘‘[3] ۲:امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ایک اور مقام پر قلم بند کیا ہے:علم اور جہاد سے دین کا قیام ہوتا ہے اور اسی لیے جہاد کی دو قسمیں ہیں:[پہلی قسم]ہاتھ اور تیر کے ساتھ جہاد اور اس میں شریک ہونے والے بہت ہیں،دوسری قسم:دلیل و بیان کے ساتھ جہاد اور یہ جہاد رسولوں کے اتباع میں سے خواص کا ہے اور یہی اماموں کا جہاد ہے۔جہاد کی یہ قسم اپنے فائدے،شدید مشقت اور دشمنوں کی کثرت کے سبب دونوں قسموں میں سے افضل ہے۔[4] ۳:حضرت امام رحمہ اللہ ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں:’’امت کو سنت پہنچانا،دشمن کے سینے میں تیر پہنچانے سے زیادہ افضل ہے،کیونکہ تیر تو بہت سے لوگ برسا
[1] سورۃ التوبۃ ؍ الآیۃ ۷۳؛ وسورۃ التحریم الآیۃ ۹۔ [2] زاد المعاد ۳؍۵۔ [3] زاد المعاد ۳؍۵۔ [4] ملاحظہ ہو:مفتاح دار السعادۃ ۱؍۷۰۔