کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 143
ج:امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔اس سلسلے میں ان کے اقوال میں سے تین درج ذیل ہیں: ۱:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے اعتبار سے سب سے زیادہ بلندی پر تھے،آپ نے ہر قسم کا جہاد کیا،قلب و روح،دعوت و بیان اور تیر اور تلوار کے ساتھ جہاد کا حق ادا کردیا،دل،زبان اور ہاتھ کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے آپ کے اوقات وقف تھے اور اسی بنا پر آپ کی شان سارے جہان والوں سے بلند تھی اور آپ کی قدر و منزلت اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ تھی۔ ابتدائے بعثت ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاد کا حکم دیا۔ارشاد فرمایا: ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیرًا۔فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا﴾[1] [اور اگر ہم چاہتے،تو ہر ایک بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے،پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور اس[قرآن]کے ذریعے پوری طاقت سے ان کے ساتھ بڑا جہاد کریں] اس مکی سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافروں کے خلاف[حجت و بیان اور تبلیغ قرآن کے ذریعے]جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔اسی طرح منافقوں کے خلاف جہاد[دلیل کے پہنچانے کے ذریعے]سے ہے،کیونکہ وہ تو پہلے ہی سے اسلامی حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ
[1] سورۃ الفرقان ؍ الآیتان ۵۱۔۵۲۔