کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 142
جائے۔جو شخص ذمہ یا عہد کے ذریعے نظامِ اسلامی کا تابع ہو،اس کے خلاف دلیل و برہان سے جہاد کیا جائے۔اسے اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کیا جائے اور اس کے سامنے شرک اور کفر کی خرابیوں کو واضح کیا جائے۔دنیا میں ان کے ساتھ اسی طرح معاملہ کیا جائے گا۔‘‘ کیا[دلیل کے ساتھ جہاد][تلوار کے ساتھ جہاد]سے افضل ہے؟ بعض علمائے امت نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے،کہ[حجت و برہان کے ساتھ جہاد][تیر اور تلوار کے جہاد]سے اعلیٰ اور افضل ہے۔اس موضوع کے متعلق ذیل میں چند ایک علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ا:علامہ زمخشری نے آیت کریمہ﴿وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً…الآیۃ کی تفسیر میں تحریر کیا ہے:’’انہیں حکم دیا گیا،کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ جہاد کے لیے جائے اور باقی لوگ تفقہ فی الدین میں مشغول رہیں،تاکہ یہ سلسلہ ختم نہ ہو،جو کہ درحقیقت[جہاد اکبر]ہے،کیونکہ دلیل کے ساتھ مجادلہ کا اثر تلوار کے ذریعے قتال سے زیادہ ہوتا ہے۔‘‘[1] ب:طلبِ علم کی خاطر نکلنے کے فی سبیل اللہ ہونے پر آیت کریمہ﴿وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً…الآیۃ سے استدلال کرتے ہوئے امام طیبی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے:’’اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تفقہ فی الدین کی ترغیب دی اور انہیں حکم دیا،کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ جہاد کے لیے روانہ ہوا اور دوسرا گروہ دین سیکھنے کے لیے رک جائے،تاکہ یہ سلسلہ منقطع نہ ہو،جو کہ[جہاد اکبر]ہے۔‘‘[2]
[1] الکشاف ۲؍۲۲۱۔ [2] شرح الطیبي ۲؍۶۷۹؛ نیز ملاحظہ ہو:مرقاۃ المفاتیح ۱؍۴۷۹۔۴۸۰۔