کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 138
اس بات کو اچھی طرح واضح کیا ہے۔ذیل میں چند ایک مفسرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
ا:ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا:
(وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ) بِالْقُرْآنِ۔[1]
یعنی ان کے ساتھ قرآن کریم کے ساتھ جہاد کرو۔
ب:امام بغوی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے:
’’(وَجَاہِدْہُمْ بہِ) أَيْ بِالْقُرْآنِ (جِہَادًا کَبِیْرًا) شَدِیْدًا۔‘‘ [2]
’’یعنی ان کے ساتھ قرآن کریم کے ساتھ شدید جہاد کرو۔‘‘
ج:حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’(وَجَاہِدْہُمْ بہِ) أَيْ بِالْقُرْآنِ (جِہَادًا کَبِیْرًا) أَيْ تَامًا شَدِیْدًا۔‘‘ [3]
’’یعنی ان کے ساتھ قرآن کریم کے ساتھ پورا اور سخت جہاد کرو۔‘‘
د:علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے قلم بند کیا ہے:
’’(آیت کی تفسیر میں) کہا گیا ہے کہ:تلوار کے ساتھ (جہاد کرو)،لیکن یہ[معنی]بعید ہے،کیونکہ سورت مکی ہے اور جہاد کے حکم سے پہلے نازل ہوئی۔
(جِہَادًا کَبِیْرًا) ایسا جہاد ہو،کہ اس میں سستی و کوتاہی نہ ہو۔‘‘ [4]
ھ:قاضی ابوسعود رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
"(وجَاہِدْہُمْ بِہِ) أَيْ بِالْقُرْآنِ،بِتَلَاوَۃِ مَا
[1] ملاحظہ ہو:تفسیر القرطبي ۱۳؍۵۸؛ وتفسیر ابن کثیر ۳؍۳۵۴۔
[2] تفسیر البغوي ۵؍۱۰۵۔
[3] زاد المسیر ۶؍۹۵۔
[4] تفسیر القرطبي ۱۳؍۵۸۔