کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 136
"أَفْضَلُ الْجِہَادِ الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ" [1] ’’بہترین جہاد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔‘‘ انہوں[فخر الدین رازیؒ]نے اس کے بعد ایک دوسرے مقام پر تحریر کیا ہے: چوتھا مسئلہ:آیت کریمہ:یعنی[وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً]اس بات کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے،کہ تفقہ اور تعلیم کا مقصود مخلوق کو دعوتِ حق دینا اور دینِ قویم اور صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی کرنا ہونا چاہیے۔‘‘ اور حدیث میں ہے: "مَنْ رَاحَ إِلَی مَسْجِدِيْ ہٰذَا لِعِلْمٍ یُعَلِّمُہُ أَوْ یَتَعَلَّمُہُ کَانَ کَمَنْ غَزَا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ" [2] ’’جو میری مسجد کی طرف علم سیکھنے سکھلانے کے لیے گیا وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے جانے والے کی مانند ہے۔‘‘ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی،کہ دعوت کی اہمیت و ضرورت بالکل جہاد کی اہمیت و ضرورت کے مثل ہے۔[3] خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ علمائے امت کے مذکورہ بالا اقوال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے،کہ تفقہ فی الدین اور اس کا سیکھنا سکھلانا جہاد کے مثل ہے،بلکہ علامہ زمخشری نے اس کو[جہاد اکبر]کا نام دیا ہے اور امام ابن قیم رحمہ اللہ اور شیخ سیّد محمد رضا رحمہ اللہ نے اسے بعض اوقات میں جہاد سے افضل قرار دیا ہے۔[4]
[1] ملاحظہ ہو:التفسیر الکبیر ۱۶؍۲۲۸۔ [2] اس حدیث کی تخریج ملاحظہ ہو:کتاب ہذا کے ص۱۱۶۔۱۱۸ پر۔ [3] ضرورۃ الدعوۃ إلی اللّٰہ تعالی وأثرہا ص ۳۱۔ [4] اس بات کی تفصیل آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیے۔