کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 135
مراد اس کا اصلی معنی یعنی جہاد کے لیے نکلنا ہوگا۔
دونوں آراء کے مطابق[آیت شریفہ میں]دین سمجھنے،سیکھنے اور سکھلانے کی ترغیب ہے اور یہ کام جہاد کے رتبہ کا ہے،بلکہ بسا اوقات اس سے بھی افضل ہوتا ہے۔[1]
د:شیخ سیّد محمد رضا رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے:آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے،کہ علم عام کرنا،دین سمجھنا،اقامت کی جگہوں میں تعلیمِ دین کے لیے مستعد ہونا،لوگوں کو ایسے انداز میں دین سکھلانا،کہ ان کی حالت سدھر جائے اور وہ دوسروں کے لیے راہنمائی کرنے والے بن جائیں،[یہ سب باتیں]فرض ہیں۔آیت شریفہ اس بات پر بھی دلالت کناں ہے،کہ اس نیت کے ساتھ علمِ دین میں مہارت حاصل کرنے والے،کلمۃ اللہ کی سربلندی اور ملت و امت کے دفاع کی خاطر جان و مال سے جہاد کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام و مرتبہ میں کم نہیں،بلکہ جہاد کے فرضِ عین نہ ہونے کے وقت ان سے اعلیٰ اور افضل ہیں اور اس کے متعلق دلائل بہت زیادہ ہیں۔[2]
ھ:ہمارے استاد شیخ عطیہ بن محمد بن سالم رحمہ اللہ نے قلم بند کیا ہے:اللہ تعالیٰ نے جہاد اور طلب علم میں سے ہر ایک کے لیے نکلنے کو[نفر]کا نام دیا ہے۔(علاوہ ازیں) انھوں نے اپنی راہ میں نکلنے والے مجاہدین اور طلبِ علم اور تفقہ فی الدین کی خاطر نکلنے والے لوگوں کو،جو واپس آکر اپنی قوم کو ڈراتے ہیں،[ان دونوں گروہوں کو]ایک دوسرے کے مقابلے میں ذکر فرمایا ہے۔
فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے،کہ:
[1] ملاحظہ ہو:مفتاح دار السعادۃ ۱؍۵۶۔
[2] ملاحظہ ہو:تفسیر المنار ۱۱؍۷۸۔