کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 134
ملک کی حفاظت کرے اور دشمنوں سے جنگ کرے اور دوسری جماعت علم حاصل کرے اور واپس آنے کے بعد اقامت گزیں لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ اور سابقہ آیت کے ساتھ اس آیت کا تعلق یہ ہے،کہ دونوں طرح کا نکلنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور احیائے دین کے لیے ہے،ایک علم کے ذریعے اور دوسرا جہاد کے ساتھ۔‘‘ [1] ج:امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے:اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو تفقہ فی الدین اور واپس آنے کے بعد اپنی قوم کو ڈرانے کی ترغیب دی ہے اور اس سے مراد یہ ہے،کہ وہ دین سیکھیں اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں۔ آیت کے معنی میں اختلاف ہے۔ایک قول کے مطابق معنی یہ بیان کیا گیا ہے،کہ سب اہلِ ایمان کا تفقہ اور حصول علم کے لیے نکلنا درست نہیں،بلکہ انہیں چاہیے کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ اس مقصد کے لیے جائے اور دین سیکھنے کے بعد واپس آکر مقیم لوگوں کو سکھلائے۔اس رائے کے مطابق آیت کریمہ میں نکلنے سے مراد علمِ دین سیکھنے کے لیے جانا ہوگا۔ علماء کے ایک دوسرے گروہ کی رائے میں معنی یہ ہے،کہ سارے مومن لوگ جہاد کے لیے نہ نکل جائیں،بلکہ ایک گروہ جہاد کے لیے روانہ ہو اور ایک گروہ دین سیکھنے کے لیے رکا رہے،جب جہاد کے لیے جانے والا گروہ واپس آئے،تو علمِ دین حاصل کرنےکی خاطر بیٹھنے والی جماعت انہیں دین اور حلال و حرام کے بارے میں نازل شدہ باتیں سمجھادے اور یہ رائے اکثر علماء کی ہے اور اس قول کے مطابق نکلنے سے
[1] البحر المحیط ۵؍۱۱۶۔