کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 130
[علم سیکھنے،سکھلانے اور مجاہد فی سبیل اللہ کے درمیان برابری کا ذکر]
دونوں میں برابری کا سبب:
اس بارے میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تحریر کیا ہے:
’’کیونکہ دونوں کا ارادہ کلمۃ اللہ تعالیٰ کی سربلندی ہے۔
یا علم اور جہاد دونوں میں سے ہر ایک کبھی فرضِ عین اور کبھی فرضِ کفایہ ہوتا ہے۔
یا دونوں میں سے ہر ایک ایسی عبادت ہے،جس کا نفع عام مسلمانوں کے لیے ہے۔‘‘ [1]
۲:امام طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مَنْ دَخَلَ مَسْجِدِيْ ہٰذَا لِیَتَعَلَّمَ خَیْرًا،أَوْ لِیُعَلِّمَہُ کَانَ بِمَنْزِلَۃِ الْمُجَاہِدِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔وَمَنْ دَخَلَہُ لِغَیْرِ ذٰلِکَ مِنْ أَحَادِیْثِ النَّاسِ کَانَ بِمَنْزِلَۃِ مَنْ یَرَی مَا یُعْجِبُہُ،وَہُوَ شَيْئٌ لِغَیْرِہِ" [2]
’’میری اس مسجد میں خیر سیکھنے سکھلانے کے لیے داخل ہونے والے کا رتبہ مجاہد فی سبیل اللہ کے درجہ کی مانند ہے،(لیکن) جو اس کی بجائے،لوگوں کی باتوں کی خاطر آیا،تو وہ اس شخص کی طرح ہے،جو خوش منظر چیز کو دیکھتا ہے،لیکن وہ کسی اور کی ملکیت ہے۔‘‘
۳:سابقہ دونوں حدیثوں میں بیان کردہ بات کی تائید حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہما اللہ کے قول سے بھی ہوتی ہے،جسے امام مالک رحمہ اللہ نے ان کے آزاد
[1] مرقاۃ المفاتیح ۲؍۴۴۸۔
[2] المعجم الکبیر،رقم الحدیث ۵۹۱۱،۶؍۱۷۵۔حافظ ہیمثیؒ نے تحریر کیا ہے:’’طبرانی نے اسے[الکبیر]میں روایت کیا ہے۔اس کی سند میں یعقوب بن حمید بن کاسب ہیں،جنہیں بخاری اور ابن حبان نے[ثقہ]قرار دیا ہے،نسائی وغیرہ نے انہیں[ضعیف]قرار دیا ہے۔ان کے ضعیف قرار دینے کی اساس صرف یہ ہے،کہ ان پر حد قائم کی گئی تھی اور ان کا[اپنے استاذ سے]سماع صحیح ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد ۱؍۱۲۳)۔