کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 127
سے مراد ہر وہ نیکی یا بھلائی کی بات ہے،جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا یا اس کی ترغیب دی ہے،(أَوْ إِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ)[یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے]اس سے مراد متضاد خیالات رکھنے والے یا جھگڑا کرنے والوں کے درمیان ایسے انداز میں صلح کروانا ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے،تاکہ وہ باہمی الفت کے ساتھ اس بات پر متفق ہوجائیں،جس پر جمع ہوجانے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے اور حکم دیا ہے۔‘‘ [1]
آمر بالمعروف کے لیے[اجر عظیم]:
مذکورہ بالا آیات کریمہ میں ایک انتہائی قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے،کہ صدقہ،بھلائی اور لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دینے والے کے اجر کو اللہ تعالیٰ نے[اجر عظیم]قرار دیا ہے اور جس چیز کو اللہ مالک الملک[عظیم]قرار دے،تو اس کی عظمت و رفعت کا احاطہ اس کے سوا کون کرسکتا ہے؟
اسی بارے میں بعض مفسرین کرام کے اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
ا:امام طبری رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے:(فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْرًا عَظِیْمًا) جس نے یہ کام کیا،ہم اجر عظیم عطا کریں گے اور جسے اللہ تعالیٰ[عظیم]کہے،وہ لامحدود ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔[2]
ب:علامہ خازن رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:(أَجْرًا عَظِیْمًا) وہ غیر محدود ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام[عظیم]رکھا ہے اور جب صورت حال یہ ہے،تو
[1] تفسير الطبري ۹؍۲۰۱۔۲۰۲۔
[2] ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۹؍۲۰۲۔