کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 125
ذکر کیا ہے،جن کا اجر و ثواب بندے کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔انہی خصلتوں میں سے امام ؒ نے ان علوم کو بھی شمار کیا ہے،جن کی نشر و اشاعت کوئی شخص اپنی زندگی میں کرتا ہے۔انہوں نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ ابْنُ آدَمَ لَیْسَ یَجْرِيْ عَلَیْہِ مِنْ فِعَالٍ غَیْرِ عَشْرٍ
عُلُوْمٌ بَثَّہَا وَدُعَائُ نِجْلٍ وَغَرْسُ النَخْلِ وَالصَّدَقَاتُ تَجْرِيْ
وَرَاثَۃُ مُصْحَفٍ وَرِبَاطُ ثَغْرٍ وَحَفْرُ الْبِئْرِ أَوْ إِجْرَائُ نَہْرٍ
وَبَیْتٌ لِلْغَرِیْبِ بَنَاہُ یَأْوِيْ إِلَیْہِ أَوْ بَنَائُ مَحَلِّ ذِکْرٍ
وَتَعْلِیْمٌ لِقُرْآنٍ کَرِیْمٍ فَخُذْہَا مِنْ أَحَادِیْثَ بِحَصْرٍ [1]
’’جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو دس اعمال کے علاوہ دیگر اعمال کا اجر و ثواب جاری نہیں رہتا۔
[وہ دس اعمال یہ ہیں:]علوم کہ اس نے ان کی اشاعت کی،بیٹے کی دعا،کھجور کا درخت اگانا اور صدقات جاری رہتے ہیں،مصحف کا کسی کو وارث بنانا،اسلامی سرحدوں کی چوکیداری کرنا،کنواں کھودنا اور نہر جاری کرنا۔پردیسی کے لیے گھر بنانا،کہ وہ اس میں پناہ لے یا ذکر (الٰہی)کے لیے جگہ تعمیر کرنا،قرآن کریم کی تعلیم دینا،احادیث شریفہ سے (ثابت شدہ) ان باتوں کو شمار کرکے مضبوطی سے تھام لو۔‘‘
[1] منقول از:بلوغ الأمانی من أسرار الفتح الرباني ۹؍۲۰۶۔