کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 124
مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے،کہ جن اعمال کا اجر و ثواب بندے کے لیے مرنے کے بعد جاری رہتا ہے،ان میں سے ایک بات یہ ہے،کہ انسان کوئی نیک عمل کرے،جس کی اقتدا کرتے ہوئے دوسرے لوگ بعد میں وہ عمل کریں،اسی طرح وہ لوگوں کو علم سکھلادے،جس کے مطابق وہ اس کے مرنے کے بعد عمل کریں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تحریر:
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
"إِنَّ الْعَالِمَ إِذَا زَرَعَ عِلْمَہُ عِنْدَ غَیْرِہِ،ثُمَّ مَاتَ جَرَی عَلَیْہِ أَجْرُہُ،وَبَقِيَ لَہُ ذِکْرُہُ،وَہُوَ عُمَرٌ ثَانٍ،وَحَیَاۃٌ أُخْرَی،وَذٰلِکَ أَحَقُّ مَا تَنَافَسَ فِیْہِ الْمُتَنَافِسُوْنَ،وَرَغِبَ فِیْہِ الرَّاغِبُوْنَ" [1]
جب عالم کسی دوسرے شخص میں علم کا بیج بوتا ہے اور پھر فوت ہوجاتا ہے،تو اس کا اجر جاری ہوجاتا ہے،اس کا تذکرہ باقی رہتا ہے اور یہ دوسری عمر اور نئی زندگی ہے۔یہی[مقام و مرتبہ]اس قابل ہے،کہ باہمی مقابلہ و منافست کرنے والے اس کے حصول میں دوڑ لگائیں اور رغبت کرنے والے رغبت کریں۔
اے مولائے کریم ہم ناکاروں اور ہماری اولادوں کو اپنے خصوصی فضل و کرم سے اس شرفِ عظیم سے محروم نہ رکھنا۔إِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کے اشعار:
امام سیوطی رحمہ اللہ نے ان خصلتوں کا اشعار کی صورت میں
[1] ملاحظہ ہو:مفتاح دار السعادۃ ۱؍۱۴۸۔