کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 121
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے: ’’علماء نے بیان کیا ہے،کہ حدیث کا معنی یہ ہے،کہ مرنے والے شخص کا عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے اور ان تین باتوں کے علاوہ نئے ثواب کا میسر آنا ختم ہوجاتا ہے،کیونکہ ان تین باتوں کا سبب وہ شخص خود ہی تھا،بچہ اس کی کمائی سے ہے،اسی طرح تعلیم و تصنیف کی شکل میں چھوڑا ہوا علم اور اسی طرح صدقہ جاریہ اور وہ وقف (کی صورت میں ہوتا) ہے۔‘‘ [1] امام طیبی رحمہ اللہ نے قلم بند کیا ہے: ’’ان تین چیزوں کے علاوہ اس سے عمل ختم ہونے سے مراد یہ ہے،کہ ان کے سوا دیگر سب اعمال نماز،زکوٰۃ اور حج کا سلسلہ ثواب منقطع ہوجاتا ہے،لیکن ان چیزوں کے ذریعے ملنے والا اجر ختم نہیں ہوتا اور حدیث کا معنی یہ ہے،کہ جب انسان مرجاتا ہے،تو اس کے بعد اس کے اعمال کا اجر تحریر نہیں کیا جاتا،کیونکہ ثواب تو عمل کی جزا ہے اور عمل موت سے ختم ہوجاتا ہے،البتہ اس عمل کا ثواب جاری رہتا ہے،جس کی خیر دائمی ہو،نفع جاری ہو،جیسے کہ زمین وقف کرنا،کتاب تالیف کرنا،کوئی مسئلہ سمجھانا،کہ اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے یا صالح بچے کا ہونا۔ان میں سے ہر ایک چیز کا ثواب موت کے بعد بھی اسے حاصل ہوتا رہتا ہے۔‘‘ [2] فوائد حدیث قلم بند کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس میں علم کی فضیلت کا بیان اور اس سے بہت زیادہ حاصل کرنے کی ترغیب ہے۔علاوہ ازیں اس بات کی بھی ترغیب ہے،کہ انسان تعلیم و تصنیف اور بیان کی شکل میں اپنے پیچھے علم چھوڑ جائے اور زیادہ سے زیادہ نفع اور فائدے والے علوم کا چناؤ کرے۔‘‘ [3]
[1] شرح النووي ۱۱؍۸۵۔ [2] شرح الطیبي ۲؍۶۶۳۔ [3] شرح النووي ۱۱؍۸۵۔