کتاب: فضائل دعوت - صفحہ 104
تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے:’’یقیناً علم کا خرچ کرنا عظیم الشان خرچ میں سے ہے۔‘‘ [1] ب:علامہ قرطبی نے اسی ارشادِ ربانی کی تفسیر میں بعض علمائے متقدمین سے نقل کیا ہے،کہ:’’وہ ہمارے سکھلائے ہوئے علم میں سے تعلیم دیتے ہیں۔‘‘ [2] ج:شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے:’’انہوں[علماء]نے بیان کیا ہے،کہ انفاق مال سے بھی ہوتا ہے اور علم سے بھی۔‘‘ [3] د:قاضی بیضاوی رحمہ اللہ نے قلم بند کیا ہے:’’ممکن ہے،کہ اس سے مراد یہ ہو،کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ظاہری اور باطنی نعمتوں سے خرچ کرتے ہیں اور اس کی تائید رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ گرامی:"إِنَّ عِلْمًا لَا یُقَالُ بِہِ کَکَنْزٍ لَا یُنْفَقُ مِنْہُ [4] " [5]’’یقیناً وہ علم جو بتلایا نہ جائے،ایسے خزانے کی طرح ہے،جس میں سے
[1] منقول از:مجموع فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ ۴؍۴۲۔ [2] تفسیر القرطبي ۱؍۱۷۹۔ [3] مجموع الفتاوی ۱۴؍۲۱۲۔ [4] امام قضاعی نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’عِلْمٌ لَا یَنْفَعُ کَکَنْزِ لَا یُنْفَقُ مِنْہُ۔‘‘[نفع نہ دینے والا علم ایسے خزانے کی طرح ہے جس سے خرچ نہ کیا جائے]۔(مسند الشھاب،علم لا ینفع ککنز لا ینفق منہ،رقم الحدیث ۲۶۳،۱؍۱۸۰)۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ،رقم الحدیث ۳۹۱۲،۴؍۳۷)۔حدیث کی مفصل تخریج کے لیے ملاحظہ ہو:کتاب ’’فضل الدعوۃ إلی اللہ تعالیٰ‘‘ ص ۶۷۔ [5] تفسیر البیضاوي ۱؍۱۹؛ نیز ملاحظہ ہو:تفسیر أبي السعود ۱؍۳۲۔