کتاب: فضائل اہلحدیث - صفحہ 88
سے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہے۔ اور اگر ہم ان کی ناراضگی کے وقت آتے تو ہمیں برابھلا کہنے لگ جاتے اور کہتے ان سے برا دنیا میں کوئی نہیں ماں باپ کے نافرمان اورجماعت کی نماز کے تارک یہ لوگ ہیں۔ اور باوجود اس کے یہ بھی حدیث بیان کرنے میں ذرا تامل کیاکرتے تھے۔
احمد بن ابوالحراری ان کے پاس کوفے میں آکر کہتے ہیں میں پردیسی آدمی ہوں۔ ایک آدھ حدیث مجھے بھی سنا دیجئے! تو کہنے لگے شہری لوگ اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ میں نے کہا جناب میں شام کارہنے والا ہوں۔ کہاپھر تو تم سے یہ اور زیادہ دورہے۔
فرمایا کرتے تھے اگر میں یہ جان لوں کہ علم حدیث کو کوئی محض دینداری کے طور پر پڑھتا ہے تومیں اس کے گھر جاکر پڑھا آیا کروں۔ میں کبھی کبھی تم پر غصہ ہوجایا کرتا ہوں اسے میں خود محسوس کرتا ہوں اور خود مجھے یہ برا معلوم ہوتا ہے میں دل سے جانتا ہوں کہ تم اس پاک اور شریف علم کے اہل ہو۔ اگر تم بھی اسے چھوڑ دو تو پھر یہ علم ہی جاتا رہے۔
﴿ایک اورعجیب و غریب واقعہ﴾
احمد بن بدیل رحمہ اللہ کے پاس ایک مرتبہ اہل حدیث کا مجمع ہوتا ہے۔ اور ان کی حدیث کے بیان کی سختی اور کمی کا شکوہ ہوتا ہے۔ تووہ کہتے ہیں تم نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ کاش کہ تم ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ کو دیکھتے۔ انہوں نے کہا جناب ان کا کیا حال تھا ؟کہاسنو! ایک مرتبہ میں اور ابوکریب اور یحییٰ بن آدم اور ایک ہاشمی شخص ان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ ہمیں صرف دس حدیثیں سنادیجئے تو کہنے لگے میں تو دو بھی نہ سناؤں۔ کہااچھا مہربانی فرماکر دو ہی سنا دیجئے۔ کہنے لگے میں تو آدھی بھی نہ سناؤں۔ کہااچھا آدھی ہی سناؤ۔ تو کہنے لگے اچھا بتاؤ اسناد سناؤں یا متن؟ تو شیخ یحییٰ بن آدم رحمہ اللہ نے کہاجناب! ہمارے نزدیک اسناد تو آپ خود ہیں۔ آپ