کتاب: فضائل اہلحدیث - صفحہ 86
﴿اور واقعہ سنئے﴾ اعمش رحمہ اللہ کسی کو اپنے پاس بیٹھنے ہی نہ دیتے تھے۔ اگر کوئی بیٹھ جائے تو بات چیت موقوف کر دیتے تھے۔ لیکن ایک صاحب تھے جو اعمش کو تنگ کیاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ چپکے سے آکر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے امام اعمش بھی سمجھ گئے کہ آج پہلو میں کوئی بیٹھا ہے تو باربار اسطرف تھوک اور کھنکار ڈالنے لگے۔ لیکن وہ غریب چپ چاپ بیٹھا ہی رہا کہ اگر انہیں پوری طرح یقین ہوجائے گا تو ابھی حدیث بیان کرنا چھوڑدینگے۔ ایک مرتبہ حفص بن غیاث نے ایک حدیث کی سند امام اعمش رحمہ اللہ سے پوچھی تو اس کی گردن پکڑ کر دیوار سے دے ماری۔ اور کہا یہ سند ہے اس کی۔ جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم اعمش رحمہ اللہ کے پاس آتے تھے۔ ان کا کتا ہمیں بڑی ایذا دیتا تھا۔ جب وہ مر گیا تو پھرہماری بھیڑ لگنے لگی تو روروکر فرمانے لگے۔ بھلائی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا مرگیا ۔ امام اعمش کے ایسے واقعات بکثرت ہیں لیکن وہ باوجود اس بے رخی کے حدیث میں ثقہ تھے، روایت میں عادل تھے، سنی سنائی حدیثوں کے ضبط کرلینے والے تھے۔ حافظہ کے بڑے زبردست تھے یہی وجہ تھی کہ لوگ سفرکرکے دور دراز سے ان کے پاس آتے تھے اور حدیث سننے کیلئے ایک بھیڑبھاڑ لگ جاتی تھی۔ کبھی وہ حدیث بیان کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔ اب ادھر سے اصرار ہوتا تھا توآپ بگڑتے تھے اور پھر انکی مذمت اور برائی کرتے تھے۔ لیکن جب غصہ چلاجاتا جوش ٹھنڈا پڑجاتا توغضب کو صلح سے اور مذمت کو مدح سے بدل ڈالا کرتے تھے۔ آپ کا قول ہے کہ جب میں کسی شیخ کو دیکھتا ہوں کہ وہ حدیث نہیں لکھتا تو مجھے سخت غصہ آتا ہے۔ اور حیرت ہوتی ہے اسی طرح جب میں کسی طالب علم کو دیکھتا ہوں کہ وہ حدیث طلب