کتاب: فضائل اہلحدیث - صفحہ 85
اخلاق ایسے بہت زیادہ اچھے نہ تھے۔ اور حدیثیں بیان کرنے میں ان کی طبیعت میں بخل بھی تھا۔ اور روایت کرنے میں ذراتنگ دل تھے ان کی یہ باتیں اہل علم میں مشہور ہیں ۔ ایک مرتبہ رقبہ بن مصقلہ ان کے پاس آتے ہیں اورکچھ پوچھتے ہیں تومنہ چڑھا لیتے ہیں رقبہ بھی غصہ ہوکر فرماتے ہیں اللہ کی قسم! تمہاری تو ہروقت تیوریاں ہی چڑھی رہتی ہیں۔ بہت جلدی دل بھاری کر لیا کرتے ہو۔ آنے جانے والوں کی تمہیں کوئی پرواہ نہیں۔ جہاں کسی نے تم سے کچھ پوچھ لیا تمہاری ناک میں رائی کے دانے چڑھ گئے۔ عیسیٰ بن یونس رحمہ اللہ کہتے ہیں ہم ایک مرتبہ ایک جنازے کے ساتھ جارہے تھے اور ایک حدیث کا طالب علم امام اعمش رحمہ اللہ کاہاتھ پکڑے ہوئے لئے آرہا تھا۔ لوٹتے وقت انہیں راستہ سے ہٹا کر دور لے جاکر ایک طرف کھڑا کر دیا۔ اور کہا ابو محمد! جانتے بھی ہو ا س وقت تم کہاں ہو؟اس وقت تم فلاں جگہ ہو۔ اب میں تمہیں یہاں سے لے کر تمہارے گھر نہیں پہنچاؤں گا۔ جب تک کہ اتنی حدیثیں مجھے نہ سناؤ جتنی میری ان تختیوں میں میں لکھ سکوں؟مجبوراً انہیں کہنا پڑا کہ اچھا لکھو جب وہ تختیاں ختم کر چکا تو ان کو حفاظت سے رکھ لیا ۔اور ان کا ہاتھ تھام کرلے چلے۔ جب کوفہ میں داخل ہوگئے تو اس طالب علم نے اپنی تختیاں اپنی جان پہچان والے ایک آدمی کو دیدیں۔ جب امام اعمش کاگھر آیا تو انہوں نے اسے پکڑ لیا اور لوگوں سے کہاا س نالائق سے تختیاں چھین لو۔ اس نے کہا ابو محمد! وہ تختیاں تو اور جگہ پہنچ گئیں۔ جب انہیں بالکل ناامیدی ہوچکی تو کہنے لگے میں نے اس وقت جتنی حدیثیں تم سے بیان کی ہیں سب جھوٹی ہیں۔ اس نوجوان نے کہا میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تو محض آپکی دھمکی ہے۔ آپ جیسا خدا ترس آدمی جھوٹ نہیں بول سکتا۔