کتاب: فضائل اہلحدیث - صفحہ 22
میں اپنی رائے اور قیاس کو دخل دیدیا۔ ان کے نوعمر لوگ ہزلیات میں پڑگئے۔ اور ان کے عمر رسیدہ لوگ فضولیات اور حجت بازی میں مشغول ہوگئے۔ ان لوگوں نے اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنا لیا اور ہلاکت کے گڑھے میں اور شیطان کے پھندوں میں اپنی جانیں ڈالدیں۔ شک و شبہ کی وجہ سے حق اٹھ گیا اور وہ اس حالت کو پہنچ گئے کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابیں اگر انکے سامنے پیش کی جائیں تو انہیں ایک طرف ڈال دیتے ہیں اور دیکھے بغیر منہ پھیر کر بھاگنے لگتے ہیں۔ اور ان عمل کرنے والوں اور ان کی روایت کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ محض دین حق کی دشمنی اور مسلمانوں کے قابل احترام اماموں پر طعنہ زنی کرکے۔ لطف تو یہ ہے کہ یہ لوگ عوام میں بیٹھ کر بڑے فخر سے ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہماری تو عمر علم کلام میں گذری۔ اپنے سوا یہ تمام لوگوں کو گمراہ جانتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ بس نجات وہی پائیں گے۔اس لئے کہ وہ کسی کی نہیں مانتے اور خود کو عدل وتوحید والے سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگرغور سے دیکھا جائے تو ان کی توحید، شرک و الحاد ہے اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک اس کی مخلوق میں سے اوروں کوبھی بناتے ہیں۔ ان کے عدل کوبھی اسی طرح اگر جانچا جائے تو وہ یہ ہے کہ یہ لوگ صحیح اور ٹھیک راستے سے ہٹ کر کتاب و سنت کے مضبوط احکام کے خلاف ہوگئے ہیں۔ تم دیکھو گے کہ ایسے علم کے محتاجوں کو جب کبھی کسی مسئلہ کی ضرورت پڑتی ہے تو کسی فقہ کے جاننے والے کی طرف لپکتے ہیں۔ اسی سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں اور اسی کے قول پر عمل کا دارومدار رکھتے ہیں۔ پھر اسی فتوے کو دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں اور پورے مقلد ہوجاتے ہیں حالانکہ خود کو محقق سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کے اقوال کو چمٹ جاتے ہیں بس ادھر فتویٰ صادر ہوا ادھر ان کا عمل شروع ہوا۔ حالانکہ بہت ممکن ہے کہ ان کے فتوے غلط ہوں۔ اور ان میں غور و خوض کی ضرورت ہو ہم نہیں سمجھتے کہ تقلید کو حرام جان کر پھر بھی …کیوں حلال کرلی جاتی ہے ؟اور ایک گناہ کو کبیرہ جانتے ہوئے پھر اسے کس طرح آسانی سے کرنے لگتے ہیں ؟سچ تو یہ ہے کہ جو چیز دنیا اور آخرت