کتاب: فضائل اہلحدیث - صفحہ 18
اپنا سامنہ لے کر اپنے دینار سمیٹ کر چل دیا۔ ابو زکریا تبری کابیان ہے کہ میں جامع دمشق میں پڑھتا تھا اور مسجد ہی کے ایک حجرہ میں رہتا تھا کبھی کبھی امام خطیب رحمہ اللہ میرے پاس تشریف لاتے اِدھر اُدھر کی کچھ باتیں کرکے مجھ سے فرماتے دیکھو بھائی ہدیہ قبول کرنا بھی مسنون طریقہ ہے۔ یہ کہہ کر ایک پڑیا میرے سامنے رکھ کر چلے جاتے میں اسے کھولتا تو اس میں پانچ اشرفیاں نکلتیں جو آپ مجھے قلم دوات کے خرچ کے لئے دے جایا کرتے تھے۔ آپ خوش آواز بلند لہجہ تھے جس وقت جامع مسجد میں احادیث پڑھتے تھے تو مسجد گونج اٹھتی تھی الفاظ حدیث کے اعراب ظاہر کرکے نہایت صحت کیساتھ پڑھتے تھے۔ حج کے زمانہ میں جب آپ چاہ زمزم کے پاس پہنچتے ہیں تو اس حدیث کو یاد کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمزم کا پانی جس مقصد کے لئے پیاجائے اسے پورا کرتاہے۔ آپ تین مقصد دل میں رکھتے اور تین مرتبہ زمزم کا پانی پیتے: ایک تو یہ کہ تاریخ بغداد آپ لکھ سکیں دوسرے یہ کہ بغداد کی مشہور جامع منصورمیں آپ درس حدیث دیں۔ تیسرے یہ کہ بشر حانی کے پڑوس میں آپ دفن ہوں آپ کی یہ تینوں دعائیں قبول ہوئیں۔ دس ضخیم جلدوں میں آپ نے تاریخ بغداد لکھی۔ جامع بغداد کے آپ مدرس بنے اورانتقال کے بعد آپ کی تربت بھی وہیں ہوئی جہاں آپکی دعا تھی۔ آپ کا مرتبہ حکومت کی نظر میں اتنا بڑا تھا کہ رئیس الروساء نے حکم دیا تھا کہ کوئی شخص وعظ اور خطبہ وغیرہ میں حدیث بیان نہ کرے جب تک کہ امام خطیب رحمہ اللہ سے اجازت نہ حاصل کر لے۔کیونکہ حدیث کی پرکھ میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ یہودیوں نے خلیفہ اسلام کے سامنے ایک عہدنامہ پیش کیا۔ جس کا مضمون یہ تھا کہ یہودان