کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 420
وجہ سےحمل میں اتنی پیچیدگی پیدا ہوچکی ہوکہ ماں کی جان خطرے میں ہو۔اور جہاں تک دوسری صورت کاتعلق ہےتوعام حالات میں ایسے جنین کااسقاط کرانا بھی ناجائز ہے۔ابن حزم لکھتےہیں: وہ جنین جس کےبعض اعضاء بن چکے ہوں مکمل جنین کی طرح ہے۔[1] اگرکوئی شخص مارپیٹ کی وجہ سے ایسی عورت کاجنین گرادے تواس پروہی دیت واجب ہوگی جوکہ مکمل جنین کےگرانے پرعائد ہوتی ہے، یعنی ایک غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا۔ لیکن اگر اس مدت میں اسقاط کرانے کاکوئی معقول سبب ہوتوپھرابارشن(اسقاط حمل) کرایا جاسکتاہے۔بوسنیا کی جنگ میں بےشمار مسلمان خواتین عیسائی سربوں سےزنا بالجبر کےتحت حاملہ ہوئیں اوراس وقت یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیاوہ اسقاط کراسکتی ہیں یانہیں۔ بعض علماء کاخیال تھا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس بچے کا توکوئی قصور نہیں جواس ناجائز حمل کی بنیاد پراس دنیا میں آنے والا ہے۔ اوراس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اس معصوم بچی کی جسے جاہلیت کےزمانہ میں بعض عرب زندہ زمین میں دفن کردیا کرتےتھے اور جس کےبارے میں قرآن نےکہا: ﴿ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ﴾ ’’ جب زمین میں گاڑی جانےوالی بچی سےپوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیاگیا؟‘‘[2] کچھ علماء کاخیال تھا کہ یہ عورتیں اسقاط کراسکتی ہیں کیونکہ اول توناجائز حمل ہے،
[1] المحلی: 12؍ 378 [2] التکویر 81: 8، 9