کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 404
سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہواور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لائے اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو وہ تم پر غصے سے انگلیاں کاٹتے ہیں ۔ کہہ دیجیے: تم اپنے غصے میں مر جاؤ،بےشک اللہ دل کی باتوں کوخوب جاننے والا ہے ۔ ‘‘[1] گویا تم جلتے بھنتے رہو، غصے سے مرتےر ہو لیکن تمہارے اس رویہ سے رسول اللہ کے لیے لالہ کی مدد رکنے والی نہیں ہے ۔ یہ معنی ابن عباس ، مجاہد ، عکرمہ ، عطا ، قتادہ اوردیگر علمائے سلف سےمنقول ہیں۔ 3۔’ہ‘ کی ضمیر سے مراد مشرکین و منافقین ہیں جن کا تذکرہ آیت نمبر 8 اور آیت نمبر 11 میں ہوا ہے ، یعنی وہ لوگ جو اللہ کےبارے میں بغیر ہدایت، بغیر علم اوربغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں ۔ اوروہ لوگ جوکنارے پر کھڑے اللہ کی بندگی کرتے ہیں، اگر کچھ اچھی چیز حاصل ہو گئی تومطمئن رہتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش آ گئی تو منہ کےب ل پلٹ جاتے ہیں ، یعنی یہ لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر وہ ایمان لے بھی آئےتب بھی اللہ کی مدد کا آنا ایک ڈھکوسلہ ہے، آسمان سے مدد وَ دَد کچھ نہیں آتی۔ یہ صرف دعوے ہی دعوے ہیں جواللہ کے رسول لوگوں کوسناتے رہتے ہیں ۔ ایسےلوگوں سےکہا گیا کہ اگر تم واقعی ایسا سمجھتے ہو تو ایک دفعہ آسمان پر کمند ڈال کر خود آسمان تک چڑھ جاؤ اور پھر اپنے فیصلے پر قائم رہو اوردیکھو کہ اس طرح تمہارا غصہ جاتا ہے یا نہیں ۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے فرعون نے اپنےوزیر ہامان سے کہا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بار بار
[1] آل عمران 3: 119