کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 403
یقطع: اس سےمراد کاٹنا ہے یا قطع نفس، یعنی پھندا ڈال کر خود کشی کرنا یا قطع امر ، یعنی کسی چیز کافیصلہ کرنا ۔( مَا كُنْتُ قَاطِعَةً أَمْراً: میں کوئی فیصلہ نہ کروں گی۔ قول ملکہ سباء) [1] معانی کے اس اختلاف کو دیکھتے ہوئے اس آیت کی تین طریقوں سے سمجھا گیا ہے ۔ 1۔’ہ‘ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرف راجع ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اپنے رسول کی مدد نہیں کرےگا، تو وہ اللہ کی مدد کو روکنے کے لیے آسمان تک ایک رسی باندھ لے، پھر اوپر چڑھ جائے اوراس مدد کو لانے والی وحی کو کاٹ ڈالے۔ اور پھر دیکھے کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے یا نہیں ۔ یہ معنی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم سے منقول ہیں ۔ 2۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا، یعنی دل میں خواہش رکھتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اللہ کے رسول کی مدد نہ ہو تو وہ اپنے غم وغصہ میں جلتا بھنتا رہے اوراپنے آپ کے مارلے اوراس کی شکل یہ ہو کہ وہ اپنے گھر کی چھت تک رسی باندھ کر پھندا اپنے گلے میں ڈال لے اور خود اپنے آپ کو پھانسی دے لے۔ اور یہ کہنا اسی طرح ہے جس طرح سورۂ آل عمران کی آیت 119 میں ارشاد ہوا۔ ﴿هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ’’تم وہ لوگ ہو جوان کو دوست رکھتے ہو اور وہ تمہیں دوست نہیں رکھتے اور تم
[1] النمل 27: 32