کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 400
ہیں‘‘ یعنی مخاطب یہ سمجھا کہ اس نےتین خداؤں کااقرار کرلیا ہےجبکہ اس کااپنا ارادہ صرف یہ ہےکہنےکا تھاکہ یہ میری تین انگلیاں ہیں۔ ایک حدیث کےمطابق میاں بیوی میں صلح کرانے کےلیے جھوٹ بولا جاسکتاہے،یعنی بیوی سےکہاجائے کہ تم توخواہ مخواہ ناراض ہوتی ہو،تمہارامیاں تو تمہارے بارے میں یہ اچھے اچھے الفاظ کہہ رہاتھا۔ اسی طرح مرد سےبھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔[1] ایک حرام چیز(جیسے جھوٹ) کاارتکاب اس وقت بھی کیاجاسکتاہےجبکہ ایک بڑے فتنے سےبچنا مقصود ہو۔ فرض کریں کہ آپ کےوالدین غیرمسلم ہیں یامسلمان توہیں لیکن بدعات وخرافات میں مبتلا ہیں اوروہ نہیں چاہتے کہ آپ کسی ایسی محفل میں شریک ہوں جس میں کتاب وسنت کی صحیح اوردرست بات کی جائے توآپ کہہ سکتےہیں کہ میں چھٹی پرگھومنے پھرنے کےلیے جارہاہوں یاکسی دوست سےملاقات کےلیے جارہاہوں۔ اس طرح آپ گھر میں ہونےوالے ایک بڑے فتنے ‎(یعنی والدین سےشکررنجی وناراضی) سےبچ جائیں گے۔ یعنی پہلے ان سوالات کوسوچ لیں: کیا چھٹی پرجانا بہت ضروری ہے؟ کیااگر آپ چھٹی پرنہ گئے تو کوئی بہت بڑا فساد رونما ہوجائے گا؟ البتہ اگر آپ کوچھٹی حاصل کرنے کا ملازمت کےقواعد کےلحاظ سے حق حاصل ہےاورمنیجر بلاسبب آپ کو چھٹی نہیں دے رہا ہے تومعاملہ اتنا سنگین نہیں رہا، آپ اپنا حق استعمال کریں۔آپ کوویسے ہی جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔
[1] یہ حدیث مطلق ہے،یعنی صلح کےلیے فریقین کےساتھ فریق مخالف کی بابت جھوٹ بولا جاسکتا ہے،صرف میاں بیوی کےمعاملے میں نہیں بلکہ ہرمعاملے میں۔ دیکھیے:صحیح البخاری،الصلح،حدیث:2692،وصحیح مسلم، البروالصلۃ والادب، حدیث:2605