کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 395
’’ اے ایمان والو! میرے دشمن کو اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ، تم ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو، حالانکہ اللہ نے جو حق تم پر بھیجا ہے وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘[1] میرے دشمن سےمراد وہ دشمن جوعقیدہ توحید کی بناپر دشمنی رکھتا ہواور تمہارے دشمن سےہروہ شخص یاقوم مراد ہےجوقومیت، وطن، زبان، قبیلہ یاکسی دوسرے سبب کی بنا پردشمنی رکھتی ہو،اسی لیے ایک اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کوایسے مناصب پرفائز نہیں کیا جانا چاہیے جن کی بدولت وہ خود مسلمانوں ہی کونقصان پہنچائیں۔ پاکستان بنتےہی کشمیر کی بناپر جوپہلی جنگ ہندوستان نےاپنی فوج سرینگر میں اتار کرپاکستان پرمسلط کی تھی، اس وقت پاکستانی فوج کاسربراہ ایک غیرمسلم تھا جس نے قائداعظم کےاحکامات کی تعمیل میں لیت ولعل سےکام لیااورجس کےنتیجے میں کشمیر ہندوستان کےقبضے میں چلا گیا۔بالکل ایسا ہی واقعہ عرب،اسرائیل کی پہلی جنگ (1948ء) میں ہوا کہ شرق اردن کی فوجوں کاسربراہ بھی ایک غیرمسلم تھا اوراس نے اسرائیل کےمقابلے میں عرب فوج کواس طرح لڑایا کہ عرب فوج کسی بھی طرح فتح حاصل نہ کر پائی۔ یہ تو قومی سطح کی بات تھی، ذاتی سطح پربھی اگر آپ ایک غیر مسلم کےہم نوالہ اورہم پیالہ بن جائیں توآپ کےبہت سے راز آپ کےدوست تک پہنچ جائیں گےاوروہ کسی وقت آپ کےلیے باعث تکلیف بھی بن سکتا ہے۔ جس بات کی اجازت دی گئی اس کا قاعدہ کلیہ سورۃ الممتحنہ کی ان دوآیات میں
[1] الممتحنہ 60: 1