کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 372
کسی بھی صورت میں ایسی شادی کی اجازت نہیں دیتا جس سےوہ لڑکی کرنا چاہتی ہےتو پھر دیکھا جائے گاکہ آیا جس شوہر کاانتخاب لڑکی نےکیا ہےوہ ایک نیک نمازی مسلمان ہے،باروزگار ہے، یعنی بیوی کانان ونفقہ ادا کرسکتا ہےاور باپ بغیر کسی معقول وجہ سے اس رشتے کاانکار کررہاہےتوپھر وہ لڑکی باپ کےبجائے کسی دوسرےقریبی ولی(یعنی چچا یابھائی)کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرےاور اگر وہ بھی انکار کریں(بغیرکسی معقول وجہ کے) توپھر ایک مسلمان ملک میں مقامی حاکم ایسی عورت کاولی متصور ہوگا اورایک غیرمسلم ملک میں کوئی صاحب حیثیت آدمی جیسے امام مسجد یا اسلامی جمعیت کاصدر وغیرہ اس عورت کاولی بن کر اس کا نکاح دوگواہوں کی موجودگی میں کرسکتاہے۔ اور اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان ہے: " فَإن اشْتَجَرُوا، فَالسُّلطَان وَلِىٌّ مَنْ لَّا وَلِىَّ لَهُ" ’’ اگر اولیاء آپس میں اختلاف کریں تو پھرحاکم ایسی عورت کاولی ہےجس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘[1] 4۔ اس آخری اقدام سےقبل ضروری ہےکہ دونوں والد اورلڑکی اپنی اپنی ذمہ داری کوسمجھیں۔ والد کو چاہیے کہ وہ لڑکی کے جذبات کا خیال کرے اور ایسی جگہ اس کی شادی نہ کرےجہاں وہ شادی نہیں کرنا چاہتی اوراگر لڑکی کی پسند می کوئی شرعی عیب نہیں ہےتوپھر ولی ایسی شادی کی اجازت دے دے۔ ایسے ہی لڑکی کوبھی خیال کرناچاہیے کہ جن والدین نےاسے پالا پوسا ہےاورجن
[1] سنن ابی داؤد،النکاح،حدیث: 2083،وجامع الترمذی،النکاح،حدیث: 1102 واللفظ لہ